تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئی‘ پک جانے کے بعد کھیتی کاٹی گئی‘ غلہ اور بھس الگ کیا گیا‘ غلہ کو چکی میں پیس کر آٹا تیار ہوا‘ پھر اس کو گوندھا گیا‘ پھر خاص صنعت کے ذریعہ روٹی پک کر تیار ہوئی۔ غور کرو اور سوچو کہ خدائے تعالیٰ نے ایک روٹی کے مہیا کرنے میں کاموں کا کس قدر طویل و پیچیدہ سلسلہ پسند فرمایا ہے‘ مگر یہ ہماری حماقت اور کج فہمی ہو گی اگر ہم اللہ تعالیٰ کو ملزم ٹھہرائیں‘ اور اپنے مجوزہ اختصار کو ترجیح دیں۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کو طوالت پسندی سے متہم کرنا حقیقتاً ہماری نابینائی و بے بصیرتی ہے‘ کیوں کہ وہ لا تعداد حکمتیں جو اس سلسلہ کار اور پیچیدہ راہ عمل میں مضمر ہیں ہماری چشم کوتاہ و فہم ناتمام سے اوجھل ہیں۔ اس تمہید کو ذہن میں رکھ کر سوچو گے تو یقینا تسلیم کر لو گے کہ صحابہ کرام کے مشاجرات درحقیت اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت شریعت کا ایک سامان تھا‘ لیکن ہم نالائقوں نے بجائے اس کے کہ بصیرت اندوز و عبرت آموز ہوتے گمراہی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام کے تمام اختلافات ان کے اجتہاد پر مبنی تھے‘ ان میں سے اگر کسی سے غلطی ہوئی تو وہ اجتہادی غلطی تھی‘ نیت اور ارادے پر مبنی نہ تھی۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا‘ جو دیدہ و دانستہ شریعت اسلام اور احکام خداوندی و ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت پر آمادہ ہو سکتا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیاحق سمجھ کر کیا۔ اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو کچھ کرتے تھے‘ اپنے آپ کو حق و راستی پر سمجھ کر کرتے تھے‘ یہی حالت دوسرے صحابہ کرام کی تھی‘ جس نے جس کو حق پر سمجھا وہ اسی کا طرف داروحامی بن گیا۔ اور یہ سب منشاء الٰہی کے ماتحت ہوا۔ خدائے تعالیٰ نے یہ اندرونی جھگڑے پیدا کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت کو تو ان کاموں میں مصروف کر دیا‘ اور دوسری جماعت نے ان آپس کے تنازعات سے بد دل ہو کر حکومت و سلطنت کے کاموں سے بالکل لاتعلقی اختیار کر کے تنہائی و گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ جب تک یہ اندرونی اختلافات پیدا نہیں ہوئے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تمام تر کوشش و ہمت کفارکا مقابلہ کرنے اور جنگ و پیکار کے میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے میں صرف ہوتی تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافتوں کا تمام زمانہ ایسی معرکہ آرائیوں اور جنگ آزمائیوں سے پر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تمام طبقات کی نگاہیں میدان کار زار اور فتوحات ملکی کی طرف لگی رہتی تھیں‘ ان دونوں متبرک خلافتوں کے زمانہ میں بھی اگرچہ جمع قرآن کا کام انجام دیا گیا‘ جو اسی ابتدائی زمانہ میں ہونا چاہیئے تھا‘ لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی کوئی معقول تعداد اور بزرگ جماعت یکسو ہو کر اور فارغ بیٹھ کر اپنی تمام تر توجہ اور پوری ہمت فقہی ترتیب و تنظیم اور احادیث نبوی کی حفاظت و تبلیغ میں صرف کر سکے۔ مدینہ منورہ ایک ایسا فوجی کیمپ بنا ہوا تھا‘ جس کے شہنشاہ خیمہ نشین کے سامنے گویا میدان جنگ کے نقشے ہر وقت کھلے رہتے تھے اور بڑے بڑے مدبر جنگی پالیسی متعین کرنے اور سرداران لشکر کی نقل و حرکت کے پروگرام تیار کرنے میں مصروف نظر