تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم کے سالے یعنی سیدنا ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کے بھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی تھے‘ ان دونوں یعنی علی و معاویہ رضی اللہ عنھما میں مخالفت اور لڑائی کیوں ہوئی‘ پھر عمرو بن العاص‘ طلحہ‘ زبیر رضی اللہ عنھم ‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا وغیرہ صحابہ کی ایک معقول تعداد نے ان آپس کی مخالفتوں اور لڑائیوں جھگڑوں میں کیوں حصہ لیا‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ان مشاجرات اور آج کل کے دنیاداروں کی لڑائیوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا‘ پس کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ ان لوگوں پر صحبت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ اثر نہیں ہوا‘ جو ہونا چاہیئے تھا۔ اس خدشہ کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہر ایک صحابی یقینا نجم ہدایت ہے اور اس بزرگ و برتر پاک جماعت پر صحبت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا بے شبہ و شک و ریب وہی اثر ہوا ہے جو ہونا چاہیئے تھا۔ ہماری کوتاہ فہمی اور تنگ نظری ہے کہ ہمارے قلوب اس قسم کے شکوک و شبہات کامقام و مسکن بن جاتے ہیں‘ سنو اور غور سے سنو‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو شریعت لے کر آئے اس میں نوع انسان کی فلاح کے جمیع اصول اتم و اکمل طور پر موجود ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کامل و مکمل شریعت کی تعلیم و تبلیغ کا فرض پورے طور پر انجام دیا‘ اس شریعت کے بعد اب قیامت تک کوئی دوسری شریعت نازل ہونے والی نہیں‘ جب کہ اس شریعت کا دامن قیامت کے دامن سے ملا ہوا ہے اور نوع انسان کو اپنی سعادت اور صلاح و فلاح تک پہنچنے کے لیے اسی شریعت کی احتیاج ہے‘ تو اس جیسی عظیم الشان اور کامل شریعت کو دوسری شریعتوں کی مانند بگڑنے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے کوئی ایسا ہی عظیم الشان سامان اور بندوبست بھی ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ نوع انسان کی تسکین خاطر اور اطمینان قلب کے لیے خدائے تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْن } پس معلوم ہوا کہ اس شریعت کی حفاظت کے سامان خدائے تعالیٰ خود ہی حسب ضرورت پیدا کرتا رہے گا‘ اور اس ساڑھے تیرہ سو سال کے عرصہ میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے شریعت حقہ کی حفاظت کے سامان خود ہی پیدا کئے ہیں‘ جس طرح ہم نے رحم مادر میں اپنی حفاظت کے سامان خود تجویز اور فراہم نہیں کئے تھے‘ جس طرح اپنے کھیتوں کو سرسبز رکھنے کے لیے سمندر سے بخارات اٹھانے‘ بادل بنانے‘ ہوائیں چلانے اور بارش برسانے کا مشورہ ہم نے خدائے تعالیٰ کو نہیں دیا تھا‘ اسی طرح ہمارا کیا حق ہے کہ ہم شریعت اسلام کی حفاظت کے سامان اور طریقے خود تجویز کریں‘ اور خدائے تعالیٰ کو مجبور کرنے کی جرأت کریں کہ وہ فلاں طریقہ استعمال کرے اور فلاں سامان کو کام میں نہ لائے۔ ہمارا تو جی چاہتا ہو گا کہ آسمان سے پکی پکائی روٹیاں برس جایا کریں اور سالن کی پکی پکائی دیگچیاں زمین سے خود بخود ابل پڑا کریں۔ لیکن خدائے تعالیٰ ہماری اس خواہش کا پابند و ماتحت نہیں بن سکتا۔ اس نے تمازت آفتاب سے سمندروں کے پانی کو بھاپ بنایا کرہ ہوائی کی بلندیوں نے بادلوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا‘ ہوائوں نے چل کر ان بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا‘ طبقات ہوا کی حرارت و برودت نے تغیرات پیدا کر کے بادلوں کو برسایا‘ کاشت کاروں نے زمین کو اپنے بیلوں اور زرعی آلات کے ذریعہ نرم کیا‘ بیج بکھیرا‘ بادلوں سے بارش ہوئی‘ درخت اگے ان کی حفاظت کی