تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آتے تھے‘ جوں جوں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا تھا یہ جنگی مصروفیت بڑھتی جاتی تھی‘ اور وہ لوگ جو ایک استاد کی حیثیت سے درس شریعت دیتے اور نکات حکمت سمجھاتے‘ تلواروں کے گھاٹ اور تیروں کی انی درست کرنے میں مصروف اور نیزوں کی انی کے مقابلے میں اپنے سینوں کو سپر بنانے میں زیادہ مشغول ہوتے جاتے تھے۔ اس جنگی مظاہرہ کی بھی اس زمانہ کی دنیا میں اسلام کو قائم رکھنے اور مسلمانوں کو بے خوف بنانے کے لیے بے حد ضرورت تھی اور خلافت عثمانی تک وہ مطلوبہ حالت پیدا ہو گئی اور اسلام تمام دنیا میں ایک غالب مذہب اور زبردست طاقت تسلیم کر لیا گیا۔ اور اب ضرورت اس امر کی تھی‘ کہ اسلام کا مکمل نظام اور شریعت کے تمام پہلو محفوظ و مامون ہو جائیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک محترم جماعت کو موقع و فراغت میسر ہو کہ وہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے تابعین کی ایک ایسی جماعت تیار کر سکیں جوان کے بعد اوروں کو تعلیم دے سکے اور یہ سلسلہ آئندہ جاری رہ کر اسلام کی حفاظت کا موجب ہو۔ پس خدائے بزرگ و برتر نے اپنی قدرت کاملہ سے عبداللہ بن سبا اور اس کے اتباع یعنی مسلم نما یہودیوں کی ایک جماعت پیدا کر کے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ جنگ جمل اور جنگ صفین کے سامان یکے بعد دیگرے مہیا کر دیئے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنھم جو میدان جنگ میں رستم و اسفندیار کے کارناموں کو حقیر ثابت کر رہے تھے اپنی اپنی کمانوں اور تلواروں کو توڑ کر گھروں میں آبیٹھے‘ اور سپہ سالاری کے کام سے جدا ہو کر معلمی کے کام میں مصروف ہو گئے۔ گذشتہ اوراق میں آپ پڑھ چکے ہیں‘ سیدنا سعد بن وقاض رضی اللہ عنہ فاتح ایران جن کی سپہ سالاری میں جنگ قادسیہ کا خون ریز میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا تھا‘ ان اندرونی اختلافات کے وقت گوشہ نشینی و گمنامی کی زندگی اپنے لیے پسند کر کے اونٹوں‘ بکریوں کے ریوڑ کی نگہداشت میں مصروف ہو گئے تھے‘ یہی حالت اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنھم کی تھی‘ فتوحات کا سلسلہ رکنے اور اندرونی مخالفتیں برپا ہونے کے بعد بہت سے صحابہ رضی اللہ عنھم شمشیر و تیر کے استعمال کو برا سمجھنے لگے‘ حالاں کہ اور کوئی صورت ایسی ممکن ہی نہ تھی کہ ان کو میدان جنگ کی صف اول سے ہٹا کر پیچھے لایا جا سکے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وہ شخص تھے‘ جن کو خلیفہ وقت تسلیم کرنے کے لیے تمام عالم اسلام متفق اور ہم آہنگ ہو سکتا تھا‘ لیکن ان اندرونی جھگڑوں نے ان کو بالکل گوشہ گزین و زاویہ نشین بنا دیا تھا۔ اس کتاب میں تم صحابہ میں سے کئی لوگوں کے نام اب تک بار بار پڑھ چکے ہو ان میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حیثیت سے اندرونی اختلافات میں شریک تھے‘ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ان جھگڑوں میں کوئی حصہ نہیں لیا اور اسی لیے ان کا نام ان واقعات میں نہیں لیا جا سکا‘ اس عظیم الشان جماعت نے ان اختلافات کے زمانہ میں ان لوگوں کو جو ادب و محبت کے جذبات لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے‘ شریعت اسلام کی حقیقت سمجھائی اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کو آگاہ کیا‘ ان میں سے ہر ایک شخص ایک مدرس اور لوگوں کو حقیقت شرع سمجھانے میں مصروف تھا۔ مدینہ منورہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنھا کا گہوارہ‘ اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی