تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا۔ معتصم کے پاس ۲۹ ربیع الثانی ۲۲۳ھ کو زبطرہ اور ملطیہ کے مفتوح و برباد ہونے کی خبر پہنچی۔ اس خبر کو بیان کرنے والے نے یہ بھی کہا کہ ایک ہاشمیہ عورت کو رومی کشاں کشاں لیے جاتے تھے اور وہ معتصم ’’معتصم‘‘ پکارتی جاتی تھی‘ یہ سنتے ہی ’’معتصم‘‘ لبیک لبیک کہتا ہوا تخت خلافت سے اٹھ کھڑا ہوا اور فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر کوچ کا نقارہ بجوا دیا‘ لشکر اور سرداران لشکر آ آ کر شامل ہوتے گئے۔ تمام شاہی لشکر اور مجاہدین کا ایک گروہ کثیر معتصم کے ہمراہ رکاب تھا۔ معتصم نے عجیف بن عنبسہ اور عمر فرغانی کو تیز رو سواروں کے دستے دے کر آگے روانہ کر دیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو زبطرہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اطمینان دلائیں۔ اور رومیوں کو مار بھگائیں‘ یہ دونوں سردار زبطرہ میں پہنچے تو رومی ان کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہو چکے تھے۔ ان کے بعد خلیفہ معتصم بھی معہ لشکر پہنچ گیا۔ وہاں خلیفہ نے معلوم کیا کہ رومیوں کا سب سے زیادہ مشہور و مضبوط اور اہم شہر کون سا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ آج کل شہر عمور یہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم قلعہ و شہر دوسرا نہیں ہے اور وہ اس لیے بھی زیادہ اہم شہر ہے کہ قیصر روم نوفل کی جائے پیدائش ہے‘ معتصم نے کہا کہ زبطرہ میری جائے پیدائش ہے اس کو قیصر روم نے غارت کیا ہے تو میں اس کے جواب میں اس کی جائے پیدائش یعنی عموریہ کو برباد کروں گا‘ چنانچہ اس نے اس قدر آلات جنگ اور سامان حرب فراہم کیا کہ اس سے پہلے کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ پھر اس نے مقدمۃ الجیش کی افسری اشناس کو دی۔ محمد بن ابراہیم بن مصعب کو اس کا کمکی مقرر کیا۔ میمنہ پر ایتاخ کو اور میسرہ پر جعفر بن دینار خیاط کو مقرر کیا۔ قلب کی افسری عجیف بن عنبسہ کو دی۔ اس انتظام کے بعد بلاد روم میں داخل ہوا‘ ان تمام افواج کی اعلیٰ سپہ سالاری عجیف بن عنبسہ کو سپرد کی۔ مقام سلوقیہ پہنچ کر نہر سن کے کنارے ڈیرے ڈال دئیے یہ مقام طرطوس سے ایک دن کی مسافت کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں یہ بات بھی ذکر کے قابل ہے کہ خلیفہ معتصم باللہ نے افشین کو آرمینیا و آذربائیجان کا گورنر بنا کر آرمینیا کی جانب بھیج دیا تھا۔ افشین آرمینیا سے اپنا لشکر لے کر بلاد روم میں داخل ہوا۔ لشکر اسلام کے ایک دستے نے آگے بڑھ کر مقام انگورہ کو فتح کیا۔ اور وہاں سے غلہ کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے ہاتھ آیا۔ جس کی مسلمانوں کو سخت ضرورت تھی۔ قیصر روم نے لشکر اسلام کے آنے کی خبر سن کر مقام انگورہ پر ہی مقابلہ کرنا چاہا تھا اور یہیں ہر قسم کا سامان و غلہ فراہم تھا۔ لیکن یہاں کی متعینہ فوج میں اور اس کے افسر میں اتفاقاً ناچاقی ہوئی اور فوج ناراض ہو کر پیچھے واپس چلی گئی۔ اس عرصہ قیصر خود سرحد آرمینیا کی طرف افشین کو روکنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہاں سے شکست کھا کہ انگورہ کی طرف لوٹا تو یہاں مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا‘ اس حالت میں وہ مجبوراً عموریہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہیں ہر قسم کی تیاری اور معرکہ آرائی کا سامان فراہم کیا۔ چاروں طرف سے فوجوں کو فراہم کر کے ہر قسم کے آلات حرب اور سامان جنگ کی فراہمی میں مصروف ہو گیا۔ ادھر خلیفہ معتصم نے انگورہ میں قیام کر کے افشین کا انتظار کیا یہیں افشین نے حاضر ہو کر خلیفہ کی ہمرکابی کا فخر حاصل کیا۔ ماہ شعبان ۲۲۳ھ کی آخری تاریخوں میں خلیفہ معتصم نے معہ فوج مقام انگورہ سے کوچ کیا۔ یہاں سے بقصد جنگ روانہ ہوا تو افشین کو میمنہ پر‘ اشناس کو میسرہ پر مامور