تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ایک مجرم سے مامون نے کہا کہ واللہ میں تجھ کو قتل کر ڈالوں گا۔ اس نے کہا کہ آپ ذرا تحمل کو کام میں لائیں۔ نرمی کرنا بھی نصف عفو ہے۔ مامون نے کہا اب تو میں قسم کھا چکا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے قسم توڑنے والے کی حیثیت سے پیش ہوں۔ تو اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ایک خونی کی حیثیت سے پیش ہوں یہ سن کر مامون نے اس کا قصور معاف کر دیا۔ عبدالسلام بن صلاح کہتے ہیں کہ ایک روز میں مامون کے کمرے میں سویا‘ چراغ گل ہونے لگا۔ دیکھا تو مشعلچی سو رہا ہے۔ مامون خود اٹھا اور چراغ کی بتی درست کر کے لیٹ گیا اور کہنے لگا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں غسل خانے میں ہوتا ہوں اور یہ خدمت گار مجھ کو گالیاں دیتے ہیں اور طرح طرح کی تہمتیں مجھ پر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے سنا نہیں۔ لیکن میں سنتا ہوں اور معاف کرتا رہتا ہوں اور کبھی یہ بھی ظاہر نہیں کرتا کہ میں نے تمھاری باتیں سنی ہیں۔ ایک روز مامون الرشید دجلہ کی سیر کر رہا تھا‘ ایک پردہ پڑا ہوا تھا‘ اس کے دوسری طرف کنارے پر ملاح بیٹھے ہوئے تھے جن کو مامون کی موجودگی کا علم نہ تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ مامون یہ سمجھتا ہو گا کہ میرے دل میں اس کی قدر ہے مگر وہ اتنا نہیں سمجھتا کہ جو شخص اپنے بھائی کا قاتل ہو اس کی ذرا بھی قدر میرے دل میں نہیں ہو سکتی‘ مامون مسکرا کر کہنے لگا کہ یارو تم ہی کوئی تدبیر بتائو کہ اس جلیل القدر شخص کے دل میں میری قدر ہو جائے۔ یحییٰ بن اکثم کا بیان ہے کہ میں مامون کے کمرہ میں لیٹا ہوا تھا‘ ابھی سویا نہ تھا کہ مامون کو کھانسی اٹھی‘ اس نے اپنی قمیص کے دامن سے اپنا منہ دبا لیا۔ تاکہ کوئی جاگ نہ اٹھے۔ مامون کا قول ہے کہ مجھ کو غلبہ حجت غلبہ قدرت سے اچھا معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ غلبہ قدرت زوال قدرت کے وقت زائل ہو جائے گا‘ مگر غلبہ حجت کو کسی وقت زوال نہیں۔ مامون کہا کرتا تھا کہ بادشاہ کی خوشامد پسندی بہت ہی بری ہے اس سے بھی بری قاضیوں کی تنگ دلی ہے جب کہ وہ معاملہ سمجھنے سے پہلے سرزد ہو‘ اس سے بھی بدتر معاملات دین میں فقہا کی کم عقلی‘ اس سے بدتر مالدار لوگوں کی کنجوسی‘ بوڑھے آدمیوں کا مذاق کرنا‘ جوانوں کا سستی کرنا اور جنگ میں بزدلی دکھانا ہے۔ علی بن عبدالرحیم مروروذی کہتے ہیں کہ مامون کا قول ہے کہ وہ شخص اپنی جان کا دشمن ہے جو ایسے شخص کی مقاربت کا خواہاں ہو جو اس سے دوری اختیار کرنا چاہتا ہے‘ اور ایسے شخص کی تواضع کرے جو اس کا اکرام نہ کرتا ہو‘ اور ایسے شخص کی تعریف کرنے سے خوش ہو جو اسے جانتا ہی نہ ہو۔ ہدیہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں ایک روز مامون کے ساتھ کھانا کھانے میں شریک تھا‘ جب دسترخوان اٹھایا گیا تو میں فرش پر سے کھانے کے ریزے چن کر کھانے لگا۔ مامون ے پوچھا کہ کیا تمھارا پیٹ نہیں بھرا ہے۔ میں نے کہا پیٹ تو بھر گیا ہے لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص دستر خوان اٹھانے کے بعد کھانے کے بچے ہوئے ریزے اٹھا کر کھائے وہ مفلسی سے امن میں رہے گا۔۱؎ مامون نے یہ سن کر مجھے ایک ہزار دینار عطا کئے۔ ایک مرتبہ ہارون الرشید حج کرنے کے بعد کوفہ میں آیا اور وہاں کے محدثین کو بلا بھیجا۔ تمام لوگ حاضر ہو گئے مگر عبداللہ بن ادریس اور عیسیٰ بن یونس نے حاضری