تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں بنو عباس کو اکثر صوبوں کی حکومت پر مامور فرمایا تھا‘ میں اس کا عوض کرنا چاہتا ہوں اور ان کی اولاد کو حکومت و خلافت سپرد کرتا ہوں۔ مامون نے دارالمناظرہ میں جب ہر عقیدہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو آزادانہ گفتگو کرنے کا موقعہ دیا اور علمی بحثیں آزادی کے ساتھ ہونے لگیں تو اس کی توجہ متکلمین اور معتزلہ کی طرف زیادہ مبذول ہو گئی۔ انھیں آزادانہ مذہبی بحث مباحثوں کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلق قرآن کا مسئلہ جو درحقیقت بالکل ۱؎ حدیث میں تین دن سے کم مدت میں قرآن کریم پڑھنے (یعنی ختم کرنے) پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے۔ چنانچہ سنن ترمذی‘ ابواب القرأۃ میں ہے کہ ’’اس شخص نے قرآن نہیں سمجھا جس نے تین دن سے کم مدت میں ختم کیا۔‘‘ (سندہ حسن) غیر ضروری اور نا قابل توجہ مسئلہ تھا‘ زیر بحث آیا‘ اور مامون خلق قرآن کا قائل ہو کر ان لوگوں پر جو خلق قرآن کے قائل نہ تھے تشدد کرنے لگا‘ اس تشدد و سختی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مخالف عقیدہ کے علماء نے اور بھی زیادہ سختی سے مخالفت شروع کی اور طرفین کی اس مخالفت و عصبیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مامون کے بعد تک بھی علماء دین کو اس بے حقیقت اور غیر ضروری مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ابو محمد یزیدی کا بیان ہے کہ میں مامون کو بچپن میں پڑھایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ خدام نے مجھ سے شکایت کی کہ جب تم چلے جاتے ہو تو یہ نوکروں کو مارتا پیٹتا اور شوخی کرتا ہے‘ میں نے اس کے سات قمچیاں ماریں‘ مامون روتا اور آنسو پوچھتا جاتا تھا۔ اتنے میں وزیر اعظم جعفر برمکی آ گیا میں اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اور جعفر مامون سے بات چیت کر کے اور اس کو ہنسا کر چلا گیا۔ میں پھر مامون کے پاس آیا اور کہا کہ میں تو اتنی دیر ڈرتا ہی رہا کہ کہیں تم جعفر سے شکایت نہ کر دو۔ مامون نے کہا کہ جعفر تو کیا میں اپنے باپ سے بھی آپ کی شکایت نہیں کر سکتا کیونکہ آپ نے تو میرے ہی فائدے کے لیے مجھ کو مارا تھا۔ یحییٰ بن اکثم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مامون الرشید کے کمرہ میں سو رہا تھا۔ مامون بھی قریب ہی مصروف خواب تھا۔ مامون نے مجھ کو جگا کر کہا کہ دیکھنا میرے پائوں کے قریب کوئی چیز ہے۔ میں نے دیکھ کر کہا کہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن مامون کو اطمینان نہ ہوا‘ اس نے فراشوں کو آواز دی۔ انہوں نے شمع جلا کر روشنی سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے بچھونے کے نیچے ایک سانپ بیٹھا ہے۔ میں نے مامون سے کہا کہ آپ کے کمالوں کے ساتھ آپ کو عالم الغیب بھی کہنا چاہیئے۔ مامون نے کہا معاذ اللہ یہ آپ کیا کہتے ہیں۔ بات صرف یہ تھی کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ اپنے آپ کو ننگی تلوار سے بچائو۔ میری فوراً آنکھ کھل گئی اور میں نے سوچا کہ کوئی حادثہ قریب ہی ہونے والا ہے‘ سب سے قریب بچھونا ہی تھا۔ لہٰذا میں نے بچھونے کو دیکھا اور سانپ نکلا۔ محمد بن منصور کا قول ہے کہ مامون کہا کرتا تھا کہ شریف آدمی کی ایک یہ علامت ہے کہ اپنے آپ سے برتر کے مظالم سہے اور اپنے آپ سے کمتر پر ظلم نہ کرے۔ سعید بن مسلم کہتے ہیں کہ مامون نے ایک مرتبہ کہا کہ اگر مجرموں کو یہ معلوم ہو جائے کہ میں عفو کو کس قدر دوست رکھتا ہوں تو ان سے خوف دور ہو جائے اور ان کے دل خوش ہو جائیں۔