تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے انکار کیا۔ ہارون الرشید نے اپنے بیٹوں امین و مامون کو ان کی خدمت میں بھیجا۔ یہ دونوں جب عبداللہ بن ادریس کے پاس گئے تو انھوں نے امین کو مخاطب کر کے سو حدیثیں پڑھ دیں۔ مامون بھی بیٹھا ہوا سنتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوئے تو مامون نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں ان احادیث کو سنا دوں‘ چنانچہ انھوں نے اجازت دی اور مامون نے بلا کم و کاست تمام حدیثیں سنا دیں۔ ابن ادریس مامون کی قوت حافظہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مامون الرشید نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ میں کسی شخص کے جواب سے ایسا بند نہیں ہوا جیسا کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے مجھ کو لاجواب کر دیا۔ بات یہ تھی کہ انھوں نے آ کر کوفہ کے عامل کی شکایت کی۔ میں نے کہا تم لوگ جھوٹ کہتے ہو‘ وہ عامل نہایت عادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ بے شک ہم جھوٹے اور امیرالمومنین سچے ہیں لیکن اس عامل کے عدل کے لیے ہمارا ہی شہر کیوں مخصوص کیا گیا ہے‘ اس کو کسی دوسرے شہر میں بھیج دیجئے‘ تاکہ وہ شہر بھی اس کے عدل سے ویسا ہی فائدہ اٹھائے جیسا ہمارا شہر اٹھا چکا ہے۔ مجبوراً مجھے کہنا پڑا کہ اچھا جائو میں نے اسے معزول کیا۔ یحییٰ بن اکثم کا قول ہے کہ میں ایک رات مامون الرشید کے کمرے میں سویا۔ آدھی رات کے وقت مجھے پیاس لگی‘ میں کروٹیں بدلنے لگا‘ مامون نے پوچھا کیا حال ہے‘ میں نے کہا پیاس لگی ہے‘ مامون اپنے بستر سے اٹھا اور پانی لایا اور مجھے پلایا۔ میں نے کہا آپ نے کسی خادم کو آواز کیوں نہ دی۔ مامون نے کہا کہ میرے باپ نے اپنے باپ سے اور انھوں نے اپنے دادا سے اور انھوں نے عقبہ بن عامر سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔۲؎ ۱؎ اس روایت کی سند نہیں مل سکی۔ البتہ ایک صحیح حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ : ’’جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھا لے اور اس میں جو گندگی (مٹی) لگ گئی ہو اسے صاف کر لے اور کھا لے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو تولیے سے نہ پونچھے‘ یہاں تک کہ (پہلے) اپنی انگلیاں چاٹ لے۔ اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے کون سے کھانے میں برکت ہے؟‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الاشربہ‘ حدیث ۲۰۳۳ و ۲۰۳۴) ۲؎ صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں سید القوم کی بجائے ساقی القوم کے الفاظ ہیں‘ یعنی قوم کا پلانے والا (صحیح مسلم‘ کتاب الصلوٰۃ‘ با الصلوٰۃ الفائتۃ۔ سنن ترمذی‘ ابواب الاشربہ‘ حدیث ۱۸۹۴‘ حدیث حسن صحیح) خلیفہ مامون الرشید کے کاموں اور کارناموں میں سب سے زیادہ قابل تعریف اور قابل تذکرہ یہ بات ہے کہ اس نے ولی عہد بنانے میں نہایت نیک نیتی اور بلند ہمتی کا ثبوت دیا اور محبت پدری کے فریب میں نہیں آیا جیسا کہ اس سے پہلے خلفاء ولی عہدی کے معاملے میں غلطی کا ارتکاب کرتے اور حکومت اسلامیہ کے لیے ولی عہدی کے متعلق وراثت کی لعنت کو مضبوط و استوار بناتے رہے۔ مامون الرشید نے امام علی رضا کو ولی عہد خلافت بنا کر خاندان عباسیہ کو بالکل محروم رکھ کر نہایت آزادی کے ساتھ ایک بہترین شخص کا انتخاب اسی نمونہ پر کیا تھا جیسا کہ صدیق اکبرؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ مگر مامون الرشید کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ عباسی لوگ اس پر کسی طرح رضا مند نہ ہوں گے اور فتنہ و فساد پر آمادہ ہو کر عالم اسلامی کو مبتلائے مصیبت کر دیں گے۔ مگر امام علی رضا کی وفات نے مامون کے اس منشاء کو پورا نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے خاندان میں سے اپنے بھائی ابواسحٰق معتصم کو ولی عہد بنایا