تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
توسط فضل بن سہل ہرگز نہیں پہنچ سکتی۔ اس کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ خلیفہ کسی شخص سے بلا توسط فضل کے ملاقات نہیں کر سکتا‘ یعنی کوئی شخص فضل کی اجازت کے بغیر خلیفہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس حالت میں مامون الرشید کی حالت قریباً ویسی ہی تھی جیسی کہ ہندوستان کے بادشاہ جہانگیر کی مہابت خاں کی قید میں۔ تاریخ اسلامیہ میں یہ سب سے پہلی مثال تھی کہ خلیفہ کو اس کے وزیر نے گویا نظر بند کر رکھا تھا اور خلیفہ اپنے آپ کو شاید نظر بند نہیں سمجھتا تھا۔ اب ابوالسرایا کے قتل اور مکہ کی طرف فوج بھیجنے کے بعد ہرثمہ کو معلوم ہوا کہ مامون الرشید کو اب تک عراق و حجاز کی بغاوتوں کا کوئی حال معلوم نہیں اور اب تک وہ ملک کی عام حالت سے بالکل بے خبر ہے۔ چنانچہ ہرثمہ فوراً خراسان کی طرف اس ارادے سے روانہ ہوا کہ میں خود دربار میں حاضر ہو کر تمام حالات سے خلیفہ کو واقف کروں گا اور فضل بن سہل کی ان کاروائیوں کو کہ اس نے خلیفہ کو اب تک بے خبر رکھا ہے۔ افشا کر دوں گا۔ ہرثمہ حسن بن سہل سے رخصت ہوئے بغیر خراسان کی طرف روانہ ہو گیا۔ فضل بن سہل کو جب اس کی اطلاع ہوئی کہ ہرثمہ دربار خلافت کی طرف آ رہا ہے تو اس نے مامون الرشید سے یہ حکم لکھوا کر بھجوا دیا کہ تم راستے ہی سے شام و حجاز کی طرف چلے جائو۔ وہاں تمھاری سخت ضرورت ہے۔ ہمارے پاس خراسان میں آنے کی ابھی ضرورت نہیں۔ ہرثمہ چونکہ حقیقت سے پہلے ہی آگاہ تھا۔ اس نے مامون کے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنی خدمات جلیلہ اور حقوق قدامت پر بھروسہ کئے ہوئے مرو کی جانب گرم سفر رہا۔ حتیٰ کہ جب مرو کے قریب پہنچا تو اس کو خیال آیا کہ مبادا فضل بن سہل مجھ کو دربار میں باریاب ہی نہ ہونے دے اور میرے آنے کا حال ہی مامون الرشید کو معلوم نہ ہو لہٰذا اس نے شہر میں داخل ہوتے ہوئے نقارہ بجانے کا حکم دیا تاکہ خلیفہ کو معلوم ہو جائے کہ کوئی بڑا سردار شہر میں داخل ہو رہا ہے۔ ادھر جب فضل کو معلوم ہوا کہ ہرثمہ نے حکم کی تعمیل نہیں کی اور برابر مرو کی طرف بڑھتا چلا آتا ہے اور میری شکایت کرنے کا قصد رکھتا ہے تو اس نے مامون الرشید سے کہا کہ مجھ کو معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ابوالسرایا کو ہرثمہ نے بغاوت پر آمادہ کیا تھا اور جب ہرثمہ کو اس کی سرکوبی پر مامور کیا گیا تو اس نے ابوالسرایا کو صاف بچ کر نکل جانے دیا اور حسن بن علی نے اس کا کام تمام کیا۔ اب اس کی نیت کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے مگر اس کی شوخ چشمی اور گستاخی کی انتہا ہو گئی ہے کہ آپ نے اس کو شام کی طرف جانے کا حکم دیا اور اس نے اس حکم کو پڑھ کر ذرا بھی پرواہ نہ کی اور خود سرانہ طور پر مرو کی طرف آ رہا ہے ۔۔۔۔ جب ہرثمہ مرو میں داخل ہوا اور شور و غل اور نقارے کی آواز مامون کے کانوں تک پہنچی تو اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسا شور ہے‘ فضل نے کہا کہ ہرثمہ آ پہنچا ہے اور وہی گستاخانہ اور فاتحانہ انداز میں داخل ہو رہا ہے۔ ان باتوں سے مامون کو سخت غصہ آیا۔ آخر ہرثمہ دربار میں داخل ہوا‘ قبل اس کے وہ اپنا مقصود اصلی اظہار و بیان میں لائے مامون نے اس سے جواب طلب کیا کہ حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی ۔۔۔۔ ہرثمہ اس کے متعلق معذرت کرنے لگا۔ لیکن مامون کا طیش و غضب اس درجہ بڑھ چکا تھا کہ اس نے فوراً اس کو نہایت بے عزتی کے ساتھ دربار سے نکلوا کر جیل خانہ میں بھجوا دیا۔ غالباً اس کی کارگزاریاں خود سفارشی بنتیں اور غصہ فرو ہونے کے بعد مامون جلدی یا دیر میں اس