تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
افطس کی طرف سے فوجوں اور علاقوں کی سرداریاں رکھتے تھے لوٹ مار اور قتل و غارت میں کمی نہیں کی۔ زید بن موسیٰ کا حال اوپر پڑھ چکے ہو کہ بصرہ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر کے زید النار کا خطاب پایا تھا۔ غرض علویوں نے ابوالسرایا کی طرف سے حکومتیں پا کر اپنی چند روزہ حکمرانی میں ایک اودھم مچا دی اور غالباً ان کا یہ ظالمانہ و سفاکانہ طرز عمل ہی ان کی ناکامی و نامرادی کا باعث ہوا۔ جب مکہ میں ابوالسرایا کے قتل کی خبر پہنچی تو اہل مکہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے‘ حسین افطس نے محمد بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے پاس جا کر کہا کہ یہ موقعہ بہت مناسب ہے۔ لوگوں کے قلوب آپ کی طرف مائل ہیں ابوالسرایا مارا جا چکا ہے‘ آپ اپنی خلافت کی لوگوں سے بیعت لیں۔ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کئے لیتا ہوں‘ پھر کوئی شخص آپ کی مخالفت نہ کرے گا۔ محمد بن جعفر ملقب بہ دیباچہ عالم نے انکار کیا مگر حسین افطس اور محمد بن جعفر کا لڑکا علی دونوں برابر اصرار کرتے رہے۔ آخر محمد بن جعفر بیعت لینے پر آمادہ ہو گئے۔ لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔ اور وہ امیرالمومنین کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ اس کے بعد حسین افطس اور محمد بن جعفر کے بیٹے علی نے بد اعمالیوں پر کمر باندھی۔ دونوں نے یہاں تک زنا کاری میں ترقی کی کہ مکہ کی عورتوں کو اپنی عصمت کا بچانا دشوار ہو گیا۔ سر بازار عورتوں اور مردوں کو بے عزت کرنے لگے۔ اوباش لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہو گئی اور یہ رات دن ان افعال شنیعہ میں مصروف رہنے لگے۔ مکہ کے قاضی محمد نامی کا لڑکا اسحٰق بن محمد ایک روز بازار میں جا رہا تھا۔ علی بن محمد بن جعفر یعنی امیرالمومنین کے صاحبزادے نے اس کو پکڑوا کر بلوا لیا اور اپنے گھر میں بند کر لیا۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھ کر ایک جلسہ کیا اور سب اس بات پر متفق و آمادہ ہو گئے کہ محمد بن جعفر صادق کو معزول کیا جائے اور قاضی مکہ کے لڑکے کو علی بن محمد کے پاس سے واپس چھڑایا جائے‘ لوگوں نے شور و غل مچاتے ہوئے محمد بن جعفر امیرالمومنین کے گھر جا کر گھیرا کیا تو انہوں نے لوگوں سے امان طلب کی اور خود اپنے بیٹے علی کے گھر میں گئے تو وہاں اس لڑکے کو موجود پایا اور علی سے لے کر لوگوں کے حوالے کیا۔ اوپر پڑھ چکے ہو کہ ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ ابراہیم قصاب نے یمن کے عامل اسحٰق بن موسیٰ بن عیسیٰ کو بھگا دیا تھا۔ اسحٰق بن موسیٰ یمن ہی میں موقعہ کا منتظر رو پوش رہا۔ اب علویوں کی اس ظالمانہ حکومت اور لوگوں کی نفرت کو دیکھ کر اس نے ایک لشکر بآسانی فراہم کر لیا۔ ابراہیم بھی یمن سے مکہ آیا ہوا تھا۔ اسحٰق نے یمن سے روانہ ہو کر مکہ پر حملہ کیا۔ علویوں نے ارد گرد کے بدوئوں کو جمع کیا اور خندقیں کھود کر اسحٰق کے مقابلے پر مستعد ہو گئے۔ اسحٰق نے اول تو صف آرائی کی مگر پھر کچھ سوچ کر وہاں سے سیدھا عراق کی جانب چل دیا۔ ادھر حسن بن سہل نے عراق سے فارغ ہو کر ہرثمہ بن اعین کو حجاز و یمن کے فسادات مٹانے کی طرف توجہ دلائی۔ ہرثمہ نے رجاء بن جمیل اور جلودی کو ایک فوج دے کر مکہ کی جانب روانہ کیا۔ ہرثمہ کا فرستادہ یہ لشکر ادھر سے جا رہا تھا ادھر سے اسحٰق آ رہا تھا۔ راستے میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ اسحٰق بھی ان لوگوں کے ساتھ مکہ کی جانب لوٹ پڑا وہاں پہنچ کر علویوں کو مقابلہ پر مستعد پایا۔ سخت معرکہ آرائی کے بعد علویوں کو شکست ہوئی اور عباسی