تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہارون الرشید کے ہمراہ تھے۔ اس سفر میں فضل بن سہل نے سپہ سالاروں اور سرداروں کو مامون کی جانب مائل کرنے کی کوشش کی تھی اور بہت سے سرداروں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم مامون کی طرف داری میں ضرور حصہ لیں گے۔ لیکن فضل بن ربیع امین کا طرف دار تھا۔ اب بعد وفات ہارون‘ فضل بن ربیع کی کوشش سے سب کے سب جو طوس میں موجود تھے‘ امین کی بیعت کر کے بغداد کی جانب روانہ ہو گئے اور اس بات کا مطلق خیال نہ کیا کہ ہارون کی وصیت کے موافق ہم کو مامون کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیئے تھا۔ کیونکہ اس تمام لشکر اور سامان کا مالک مامون ہے۔ یہ سردار جو مامون کے پاس تھے ہارون الرشید کی وصیت کے موافق ممالک مشرقیہ پر اس کی حکمرانی کے موئد اور ہر طرح اسی کے ہوا خواہ تھے‘ ان میں سے بعض نے یہ مشورہ دیا کہ فضل بن ربیع ابھی راستہ میں ہے۔ یہاں سے فوج بھیج کر اس کو مرو کی جانب واپس لایا جائے‘ مگر فضل بن سہل نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اگر اس طرح ان لوگوں کو واپس لایا گیا تو اندیشہ ہے کہ وہ دھوکہ دیں گے اور موجب نقصان ثابت ہوں گے۔ ہاں مناسب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس جنہوں نے فرمانبرداری کا اقرار کر کے اعانت و ہمدردی کے وعدے کئے تھے‘ پیغام بھیجا جائے اور ان کو ہارون الرشید کی وصیت اور ان کے وعدے یاد دلائے جائیں۔ چنانچہ دو قاصد روانہ ہوئے‘ وہ جب فضل وغیرہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے سب کو اپنا دشمن پایا۔ بعض نے تو علانیہ مامون کو گالیاں بھی دیں۔ یہ دونوں قاصد مشکل سے اپنی جان بچا کر واپس آئے اور حالات جو کچھ دیکھ کر آئے تھے سنائے‘ مامون کو یقین تھا کہ مجھ کو ممالک مشرقیہ پر قابض نہ رہنے دیا جائے گا۔ اس لیے وہ بہت فکر مند اور پریشان تھا۔ ادھر فضل بن سہل نے اس بات کا بیڑا اٹھایا کہ مامون کو خلیفہ بنا کر رہوں گا۔ مامون کے ہمراہیوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو مامون کے خلیفہ ہونے کو ناپسند کرتے مگر ممالک مشرقیہ پر اس کے قابض رہنے کے خواہاں تھے۔ لیکن فضل بن سہل اور اس کے ہم خیال لوگ امین کی خلافت کو ناپسند کرتے تھے اور مامون ہی کو خلیفہ بنانے کے خواہاں تھے۔ فضل بن سہل کا باپ سہل ایک نو مسلم مجوسی تھا جو ہارون الرشید کے زمانہ میں مسلمان ہوا تھا اور ہارون ہی نے اس کے بیٹے فضل کو مامون کا کاتب مقرر کیا تھا۔ مجوسی النسل ہونے کی وجہ سے وہ مامون کو خلیفہ بنانا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ امین کی ماں ہاشمیہ تھی‘ اور وہ عربوں کی حمایت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ مامون کی ماں ایرانی النسل تھی۔ اس لیے ایرانی و خراسانی لوگ مامون کے ہوا خواہ تھے۔ امین بغداد میں عربوں کے اندر موجود تھا اور مامون اپنے حامیوں یعنی ایرانیوں کے اندر مرو میں تھا۔ زبیدہ خاتون مامون سے متنفر تھی اور عربی سردار جو عباسیوں کے ہوا خواہ تھے وہ علویوں کو ناپسند کرتے تھے۔ لیکن خراسان میں علویوں کے حامی بکثرت موجود تھے۔ جعفر برمکی جو علویوں کا طرف دار تھا مامون کا اتالیق تھا۔ لہٰذا مامون کی قبولیت خراسان وغیرہ ممالک مشرقیہ میں زیادہ تھی۔ فضل بن ربیع وغیرہ جو برامکہ سے متنفر تھے‘ مامون سے بھی ناخوش تھے۔ غرض کہ مامون و امین کے دل صاف نہ تھے اور ان دونوں کے گرد ایسے سردار جمع تھے جو دو گروہوں میں منقسم تھے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کا مخالف تھا۔ لہٰذا ہارون کے مرتے ہی ان دونوں گروہوں نے امین و مامون کی پیشوائی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں اور ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن نہ تھے۔