تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
برامکہ ناپسند کرتے ہیں۔ جب علی بن عیسیٰ نے موسیٰ بن یحییٰ اور یحییٰ بن خالد کے دوسرے بیٹوں اور رشتہ داروں کی شکایت لکھ کر بھیجی کہ یہی لوگ خراسان میں بد امنی پیدا کر رہے ہیں تو ہارون کی گہری توجہ مسئلہ خراسان کی طرف منعطف ہو گئی۔ اس نے برامکہ سے اس بات کو بالکل پوشیدہ رکھا اور برامکہ کو یہ نہ معلوم ہو سکا کہ خلیفہ ہماری طرف کن گہری متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے علی کی شکایتوں کی عرضیاں ہارون کے پاس بھجوائیں۔ اگر ان کو یہ بات محسوس ہو جاتی کہ ہماری طرف شبہ کی نگاہیں پڑ رہی ہیں تو وہ ہرگز شکایتی عرضیاں نہ بھجواتے اور علی بن عیسیٰ کو بغاوت سے متہم نہ کراتے۔ اب جبکہ ہارون رے میں پہنچا اور علی بن عیسیٰ نیاز مندانہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے تنہائی میں وہ تمام باتیں جو خراسان میں اس کو معلوم و محسوس ہوئی تھیں‘ ہارون کی خدمت میں گذارش کی اور ظاہر کیا کہ تمام ملک خراسان اور اس کے متعلقہ و ہمسایہ صوبے درحقیقت برمکیوں کی مٹھی میں ہیں اور وہ نہایت اہتمام و احتیاط کے ساتھ ابو مسلم خراسانی کے خون کا بدلہ لینے کی تیاری کر چکے ہیں۔ ان باتوں کو سن کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ ہارون کے دل پر کیا گزری ہو گی اور کس طرح اس کے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو گی۔ ایک طرف برمکیوں کا اقتدار و اختیار اس کی آنکھوں کے سامنے تھا دوسری طرف اس نے یہ باتیں سنیں چنانچہ علی بن عیسیٰ کی اس نے ہمت افزائی کر کے مرو کی جانب رخصت کر دیا اور اپنے قلبی تاثرات کو احتیاط کے ساتھ پوشیدہ رکھ کر واپس ہوا۔ علی بن عیسیٰ کے رخصت ہونے کے بعد اب فضل بن ربیع کو موقعہ ملا اور اس نے یہ وحشت انگیز خبر ہارون کے گوش گزار کی کہ جعفر برمکی نے یحییٰ بن عبداللہ کو رہا کر دیا ہے اور وہ خروج کی تیاریوں کے لیے کہیں چلے گئے ہیں۔ ہارون نے جعفر سے برسبیل تذکرہ یحییٰ بن عبداللہ کا حال دریافت کیا۔ جعفر نے کہا کہ وہ میرے پاس بدستور نظر بند ہیں۔ ہارون نے کہا‘ کیا تم یہ بات قسمیہ کہہ سکتے ہو؟ یہ سنتے ہی جعفر حواس باختہ سا ہو گیا اور سمجھ گیا کہ راز افشاء ہو چکا ہے۔ اس نے سنبھل کر کہا کہ یحییٰ بن عبداللہ کو میرے زیر نگرانی رہتے ہوئے عرصہ دراز گزر چکا تھا اور مجھ کو ان کی طرف سے کسی قسم کے خطرہ کا اندیشہ نہ رہا تھا‘ اس لیے میں نے ان کے رہا کر دینے میں کوئی ہرج نہیں دیکھا۔ ہارون کے لیے یہی سب سے زیادہ نازک موقعہ تھا۔ اس وقت اگر وہ کسی ناراضی کا اظہار کرتا تو پھر برامکہ ہرگز ہرگز اس کے قابو میں نہیں آ سکتے تھے اور وہ فوراً اپنی حفاظت کے لیے وہ تمام سامان کام میں لے آتے جو اب تک مادی اور معنوی اعتبار سے وہ فراہم کر چکے تھے۔ ہارون کے لیے برامکہ کا مقابلہ ہرگز آسان نہ تھا اور ممکن تھا کہ وہ ہارون کو سانس لینے اور اف کرنے کا بھی موقعہ نہ دیتے۔ کیونکہ خاص یحییٰ بن خالد کے بیٹوں اور پوتوں میں پچیس آدمی جو صاحب سیف و قلم تھے ہارون کے محل میں مختلف حیثیتوں اور مختلف بہانوں سے ہمہ وقت موجود رہتے تھے‘ تمام ملکوں کے انتظام و اہتمام کی کنجی برامکہ کے ہاتھ میں تھی۔ فوجوں کے سردار سب ان کے آوردے اور انہیں کے فرماں بردار تھے۔ انتظامی افسر اور دفتروں کے اعلیٰ عہدے دار سب انھیں کے رکھے ہوئے تھے۔ علماء و فقہاء و صوفیاء بھی ان کی گرفت سے باہر نہ تھے کیونکہ وہ ان لوگوں کی بڑی خدمت کرتے اور ان کو زیر بار احسان کرتے تھے۔ شعراء سب انھیں