تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حالت میں فضل بن ربیع کے لیے ایک ہی راہ عمل تھی کہ وہ برامکہ کی بے وفائی‘ غداری اور بغاوت کے ثبوت تلاش کرے اور اگر کوئی ایسی بات مل جائے تو خلیفہ کو ان سے بدگمان بنا کر اپنا مقصد دلی حاصل کرے۔ برمکی چونکہ تجربہ کار‘ ہوشیار اور بہت چوکس رہنے والے تھے‘ اس لیے فضل بن ربیع کو کوئی موقعہ نہیں مل سکتا تھا کہ وہ ان کو متہم کرے‘ لیکن وہ ان کے تمام اعمال و افعال کو غور و تجسس کی نگاہ سے ضرور مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ برمکیوں نے اپنی سخاوت اور زر پاشی کے ذریعہ سے اپنے اس قدر ہمدرد و ہوا خواہ بنا لیے تھے کہ فضل بن ربیع اپنے لیے کوئی راز دار بھی تلاش نہیں کر سکتا تھا۔ ہارون الرشید اس کے قدیمی و خاندانی حقوق کو مد نظر رکھ کر کوئی عہدہ سپرد کرنا چاہتا تھا مگر اس کی ماں خیزران بھی چونکہ فضل اور اس کے باپ ربیع سے ناراض تھی‘ اور اس ناراضی میں یحییٰ اس کا شریک تھا‘ لہٰذا خیزران نے بیٹے کو اس ارادے سے باز رہنے کی تاکید کی۔ جب خیزران کا ۱۷۴ھ میں انتقال ہو گیا تو ہارون نے فضل بن ربیع کو حساب کتاب کے دفتر کا مہتمم بنا دیا اور اب فضل بن ربیع کو کسی قدر پہلے سے زیادہ رسوخ حاصل ہو گیا۔ یحییٰ بن عبداللہ جب دیلم سے فضل بن جعفر کے ساتھ آئے تھے تو ہارون الرشید نے عہد نامہ لکھ دینے کے باوجود ان کو قید کرنا چاہا اور اس معاملہ میں اول بعض فقہاء سے فتویٰ حاصل کیا۔ یہ خبر سن کر برمکیوں نے یحییٰ بن عبداللہ کے موافق کوششیں اور خلیفہ کی خدمت میں سفارشیں کیں۔ کیونکہ وہ ابو مسلم خراسانی کے عقیدے پر قائم اور اہل بیت کے در پردہ حامی و مددگار تھے۔ ہارون نے جعفر بن یحییٰ کی نگرانی میں یحییٰ بن عبداللہ کو دے دیا اور کہہ دیا کہ تم ہی ان کو اپنے پاس نظر بند رکھو‘ جعفر نے یحییٰ بن عبداللہ کو بڑی عزت و آرام سے اپنے یہاں رکھا۔ ۱۸۰ھ میں جب ہارون الرشید نے علی بن عیسیٰ کو خراسان کا گورنر بنا کر بھیجا تو یحییٰ بن خالد نے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے علی کے اس تقرر کی مخالفت کی۔ یہ غالباً ہارون الرشید کا پہلا کام تھا جو اس نے یحییٰ بن خالد کی منشاء اور خواہش کے خلاف کیا۔ یحییٰ اور اس کے بیٹے اور اس کے رشتہ دار چونکہ تمام ملکوں پر چھائے ہوئے تھے لہٰذا برمکیوں نے علی بن عیسیٰ کو خراسان میں چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ یحییٰ کے بیٹے موسیٰ نے اپنے میسر شدہ ذرائع کو کام میں لا کر بغاوت پر بغاوت اور سرکشی پر سرکشی کرانی شروع کر دی۔ علی بن عیسیٰ کو اتفاقاً اس کا حال معلوم ہو گیا کہ خراسان میں یہ بد امنی کس کے اشارے سے ہو رہی ہے۔ اس نے ہارون الرشید کی خدمت میں موسیٰ بن یحییٰ کی شکایت لکھ کر بھیجی۔ اس شکایت اور یحییٰ کی اس مذکورہ مخالفت نے مل کر ہارون الرشید کے دل میں ایک خیال اور شبہ پیدا کر دیا جس کا نتیجہ تھا کہ جب برمکیوں کے اہتمام خاص سے علی بن عیسیٰ کی نسبت یہ خبریں دربار خلافت میں پہنچنی شروع ہوئیں کہ علی بن عیسیٰ بغاوت پر آمادہ ہے اور خلیفہ کے خلاف تیاریاں کر رہا ہے تو ہارون الرشید نے کسی امیر یا سپہ سالار کو اس طرف نہیں بھیجا۔ بلکہ بذات خود فوج لے کر خراسان کی طرف روانہ ہوا۔ اور رے میں پہنچ کر قیام کیا۔ یہ ۱۸۶ھ کا واقعہ ہے۔ ابھی تک ہارون الرشید کو محض شبہ ہی شبہ تھا اور وہ برمکیوں کی نسبت کوئی بدگمانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کو یہ تو معلوم ہو چکا تھا کہ علی بن عیسیٰ کے خراسان میں رہنے کو