تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے قصیدہ خوان تھے۔ تمام رعایا میں ان کی سخاوت کی شہرت تھی اور اس لیے وہ مغرب سے لے کر مشرق تک محبوب خلائق بن چکے تھے۔ یہ وہ عظیم الشان تیاریاں تھیں کہ میدان میں نکل کر ایک ہارون کیا کئی ہارون بھی شاید کامیاب نہ ہوتے۔ لیکن ہارون نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جعفر سے یحییٰ بن عبداللہ کے رہا ہونے کا حال سن کر نہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ میں نے اس وقت ویسے ہی اتفاقیہ دریافت کیا تھا تم نے اس کو چھوڑ دیا بہت ہی اچھا کیا۔ میں خود اس وقت تم سے یہی کہنے والا تھا کہ یحییٰ بن عبداللہ کو رہا کرو۔ اب ہر شخص غور کر سکتا ہے کہ یحییٰ بن عبداللہ جیسے شخص کا رہا ہونا ہارون الرشید کے لیے بجلی کے ٹوٹ پڑنے سے کم نہ تھا۔ علویوں کے خروج سے عباسی اب تک مطمئن نہ ہوئے تھے اور یحییٰ بن عبداللہ کوئی معمولی شخص نہ تھا جس کے آزاد ہونے کو ہارون معمولی واقعہ سمجھتا۔ بہرحال ہارون نے اس موقعہ پر فتح حاصل کی اور اپنی دلی حالت کو چھپایا۔ اسی زمانہ میں یہ اتفاقی واقعہ پیش آیا کہ جعفر کے یہاں کسی ضیافت کے موقعہ پر اکثر اراکین سلطنت اور ایرانی النسل سردار موجود تھے‘ اسی جلسہ میں کسی شخص نے کہا کہ ابو مسلم نے کیسی قابلیت سے سلطنت کو ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں منتقل کر دیا۔ جعفر نے یہ سن کر کہا کہ یہ کوئی زیادہ قابل تعریف کام نہ تھا۔ کیونکہ چھ لاکھ آدمیوں کا خون بہا کر ابو مسلم نے یہ کام انجام دیا‘ قابلیت اور خوبی کی بات تو یہ ہے کہ سلطنت ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں تبدیل ہو جائے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ اس جلسہ میں کوئی ایسا شخص بھی موجود تھا‘ جس نے یہ تمام گفتگو ہارون الرشید کو سنائی اور اس کو یقین ہو گیا کہ جعفر برمکی خود ایسا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس نے برامکہ کو غافل کرنے کے لیے اپنے بیٹے کی ولی عہدی اور تینوں بیٹوں کے درمیان ملکوں کے تقسیم کرنے کی دستاویز مرتب کرنے کا کام شروع کر دیا۔ یہ اس قسم کے کام تھے کہ کوئی خلیفہ اتنی بڑی سازش سے مطلع ہو کر ان کاموں کو ہرگز شروع نہیں کر سکتا تھا۔ یہی ہارون کا سب سے بڑا دھوکہ تھا جو اس نے برامکہ کو دیا۔ ان سب باتوں میں وہ زیادہ وقت بھی صرف نہیں کر سکتا تھا اور تادیر برامکہ کو غافل بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔ چنانچہ ۱۸۶ھ کے آخری مہینوں میں وہ رے سے واپس ہوا۔ موتمن کی ولی عہدی کی بیعت لی۔ تقسیم نامہ لکھا۔ امین اور مامون سے عہد نامے لکھا کر دستخط کرائے‘ حج کے لیے گیا۔ خانہ کعبہ میں اس عہد نامہ کو لٹکایا۔ لوگوں میں خیرات کی‘ مدینہ منورہ میں آ کر انعامات و خیرات تقسیم کر کے واپس ہوا۔ اور مقام انبار میں پہنچ کر یکایک محرم ۱۸۷ھ کی آخری تاریخ وقت شب جس کی صبح کو یکم ماہ صفر تھی‘ جعفر کو قتل کر کے اس کے باپ اور بھائیوں کو قید کر لیا اور کسی کو کوئی حرکت کرنے کا مطلق موقعہ نہیں دیا۔ مقام انبار میں پہنچ کر ہارون الرشید نے ایک روز رات کے وقت اپنے حاجب مسرور کو بلوایا اور کہا کہ سرہنگوں کی ایک قابل اعتماد جماعت کو لے کر اسی وقت جعفر کے خیمہ میں جائو اور اس کو خیمہ کے دروازے پر طلب کر کے اس کا سر اتار لائو۔ مسرور اس حکم کو سن کر سہم گیا مگر ہارون نے سختی سے کہا کہ میرے اس حکم کی فوراً بلا توقف تعمیل ہونی چاہیئے۔ مسرور اسی وقت رخصت ہوا اور جعفر کے خیمہ میں جا کر