تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکومت و سلطنت ایسی چیز ہے کہ اس کے لیے بھائی بھائی کا اور باپ بیٹے کا دشمن بن جاتا ہے۔ سلطنتوں کی تاریخیں اس پر شاہد ہیں۔ عباسیوں نے بھی جس شخص کو اپنی حکومت و سلطنت کے لیے مضر محسوس کیا اس کو بلا دریغ قتل کر دیا۔ خلیفہ منصور نے ابو مسلم کو جب دیکھا کہ وہ حکومت و سلطنت کو اپنے قبضہ میں لانا چاہتا ہے تو فوراً اس کا قصہ پاک کر دیا۔ بادشاہوں کی اس عادت اور روش خاص سے کبھی کبھی ان کے مصاحب اور اہل کار ناجائز فائدہ بھی اٹھا لیا کرتے ہیں۔ یعنی جس شخص کو وہ بادشاہ کے ہاتھ سے نقصان پہنچوانا چاہتے ہیں اس کی نسبت عموماً بغاوت ہی کا الزام ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ منصور کا حاجب یعنی افسر باڈی گارڈ ربیع بن یونس تھا جو سیدنا عثمان غنی کے غلام کیسان کی اولاد میں سے تھا اور منصور کا سب سے بڑا معتمد تھا۔ منصور نے اس کو اپنا مصاحب مشیر بھی بنا رکھا تھا۔ منصور کے زمانے میں وہ بہت بڑا اختیار و اقتدار رکھتا تھا۔ ابو مسلم کے قتل کا مشورہ دینے والا ربیع ہی سمجھا جاتا تھا۔ خالد بن برمک کی جگہ منصور نے ابو ایوب ہی کو وزیر بنایا تھا۔ لیکن ۱۵۳ھ میں ربیع بن یونس کو وزیر بنایا۔ مگر یہ حاجب ہی کے لقب سے مشہور رہا۔ منصور کی وفات کے وقت اسی نے خلافت مہدی کی بیعت کا اہتمام کیا۔ مہدی کے زمانے میں ربیع اپنے عہدئہ وزارت پر قائم رہا۔ مگر چونکہ وہ حاجب کے لقب سے مشہور تھا اس لیے مہدی نے اس کے ساتھ ابو عبداللہ معاویہ بن یسار کو بھی وزارت کا عہدہ دے کر سلطنت کے اکثر صیغے اس کے سپرد کر دئیے۔ ربیع نے چند روز کے بعد ابو عبداللہ کو معزول و معتوب کرا کر قید کرا دیا۔ ابو عبداللہ کی جگہ مہدی نے یعقوب بن دائود کو مامور فرمایا۔ یعقوب بن دائود بھی چند روز کے بعد معزول و معتوب ہوا۔ اس کے بعد مہدی نے فیض بن ابی صالح کو جو نیشاپور کے ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وزارت کا عہدہ عطا کیا۔ غرض مہدی کے زمانہ میں ربیع بن یونس نے کسی وزیر کو کامیاب و مطمئن نہ ہونے دیا اور حقیقتاً وہی وزارت کا مالک رہا۔ مہدی کے بعد ہادی کا زمانہ شروع ہوا تو ربیع بن یونس کا اقتدار اور بھی ترقی کر گیا۔ کیونکہ ہادی نے وزارت کے تمام اختیارات اس کو سپرد کر دئیے تھے۔ امور سلطنت سے خیزران کے دخل کو دور کرنا بھی ربیع کی تحریک کا نتیجہ تھا۔ ہادی اور ربیع کی وفات قریب ہی قریب واقع ہوئی۔ ربیع کے بیٹے فضل بن ربیع کو توقع تھی کہ مجھ کو ضرور کوئی بڑا عہدہ ملے گا‘ لیکن ہارون نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی سلطنت کا تمام و کمال انتظام یحییٰ بن خالد کے سپرد کر دیا۔ یحییٰ بن خالد ابو مسلم کے گروہ کا آدمی تھا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اور وہ ربیع بن یونس سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ کیونکہ ربیع ایک طرف قتل ابو مسلم کا محرک تھا تو دوسری طرف یحییٰ کے باپ خالد بن برمک کو نفرت کی نظر سے دیکھنے اور وزارت سے معزول کرا کر اپنے دوست ابو ایوب کو اس کی جگہ مقرر کرانے والا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے فضل بن ربیع کو کوئی عہدہ نہ دلوایا اور حاجب کے عہدے پر قائم رکھ کر اس عہدے کے بھی تمام اختیارات چھین کر فضل بن ربیع کو عضو معطل بنا دیا۔ اب غالباً یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جائے گی کہ خاندان برمک اور فضل بن ربیع کی عداوت بہت پرانی اور مستحکم عداوت تھی۔ جوں جوں برمکیوں کا عروج ہوتا گیا اور ان کا اقتدار بڑھتا گیا۔ فضل بن ربیع کی عداوت اور حسد نے ضرور ترقی کی مگر وہ اس لیے کہ ہارون کو اس خاندان پر حد سے زیادہ اعتماد تھا‘ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘ ایسی