تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی آخری آدھی عمر سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے کا تماشا دیکھنے میں صرف ہوئی تھی اور وہ خود سلطنتوں کو برباد کرنے اور نئی سلطنت قائم کرنے کے کام میں شریک غالب کی حیثیت سے کام کر چکا تھا۔ اس کی وفات کے وقت اس کے بیٹے یحییٰ کی عمر ۴۵ یا ۵۰ سال کی تھی‘ اور اس نے بھی ہوش سنبھالتے ہی یہ تمام تماشے اور ہنگامے دیکھے تھے۔ وہ اپنے باپ سے اس کے تمام عزائم‘ تمام خیالات‘ تمام خواہشات‘ تمام احتیاطیں ورثہ میں پا چکا تھا۔ وہ اپنے باپ دادا کی بربادی‘ اپنے خاندانی احترام‘ ایرانی شہنشاہی کے افسانے نہایت عقیدت و حسرت کے ساتھ سن چکا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ایرانی قوم کا نمائندہ اور پیشوا سمجھتا اور اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ ایک ذرا سی لغزش پا اس رسوخ کو جو خلافت اسلامیہ میں حاصل ہے ضائع کر کے تحت الثریٰ میں پہنچا سکتی ہے۔ دوسری طرف اس کو اور اس کے باپ کو خاندان خلافت کے اندرونی اور خاندانی معاملات میں بھی دخل تھا۔ صحبت مدام نے اس کے قلب کو رعب سلطنت کے بوجھ سے چور چور اور مرعوب ہونے سے بھی بچا لیا تھا۔ خالد بن برمک نے سب سے بڑا کام اور نہایت گہری تدبیر یہ کی تھی کہ ۱۶۱ھ میں مہدی کو مشورہ دیا کہ شہزادہ ہارون الرشید کا اتالیق یحییٰ کو بنایا جائے۔ مہدی چونکہ خود خالد کی اتالیقی میں رہ چکا تھا لہٰذا اس نے اپنے بیٹے کو خالد کے بیٹے کی تالیقی میں سپرد کرنا بالکل بے ساختہ چیز سمجھا۔ اس سے بھی پہلے جبکہ ہارون الرشید بمقام رے خیز ران کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا تو خالد مہدی کے ساتھ رے میں موجود تھا۔ خالد ہی نے ہارون الرشید کو یحییٰ کی بیوی کا اور اپنے پوتے یعنی یحییٰ کے بیٹے فضل کو خیز ران کا دودھ پلوا کر فضل اور ہارون کو دودھ شریک بھائی بنوایا تھا۔ خالد کی ان تمام تدابیر کو اگر بنظر غور دیکھا جائے تو اس نے نہایت ہی خوبی کے ساتھ اپنے خاندان کی پوری پوری حفاظت کر لی تھی کیونکہ وہ ایک نہایت عظیم الشان کام انجام دینا یعنی ابو مسلم کا بدلہ لے کر ایرانیوں میں حکومت و سلطنت کو واپس لانا چاہتا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ہارون کو تعلیم و تربیت کیا تھا‘ اس نے ہارون پر یہاں تک اپنا اثر قائم کر لیا تھا کہ ہارون تخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بھی یحییٰ کو پدر‘ بزگروار ہی کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور اس کے سامنے بے تکلفانہ گفتگو کرتا ہوا شرماتا تھا۔ خلیفہ ہادی کا عہد خلافت کسی طرح بھی خاندان برمک کے منصوبوں کے موافق نہ تھا اور ہادی پر یحییٰ کا کوئی اثر بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو صرف اسی قدر کہ وہ متوسلین میں سے ایک تھا۔ لیکن یحییٰ نے وہ تدابیر اختیار کیں کہ ہادی کی حقیقی ماں خیز ران اپنے بیٹے ہادی کی دشمن بن کر اس کی جان کی خواہاں ہو گئی اور یحییٰ دخیز ران نے مل کر جلدی ہی اس کا کام تمام کر دیا‘ اور سال بھر سے زیادہ اس کو حکومت کا موقعہ نہ مل سکا۔ ہارون کی تخت نشینی کے لیے یحییٰ کا کوشش کرنا ظاہر ہے کہ خود اپنی ہی ذات کے لیے کوشش کرنا تھا۔ ہارون نے خلیفہ ہوتے ہی جیسا کہ توقع تھی یحییٰ بن خالد کو وزیراعظم اور مدار المہام خلافت بنا دیا۔ یحییٰ ایسا بے وقوف نہ تھا کہ ہارون کی ماں خیزران کو ناراض رکھتا۔ اس نے ہر ایک کام خیزران کے مشورہ سے کرنا شروع کیا۔ یعنی اپنی ہر ایک تجویز کے لیے پہلے خیزران سے مشورے لیتا تھا۔ چند روز کے بعد خیزران فوت ہو گئی اور یحییٰ کو اس تکلف کی بھی ضرورت باقی نہ رہی۔ یحییٰ نے امور خلافت اور مہمات سلطنت میں اس انہماک‘ دل سوزی اور خوبی سے کام کیا کہ ہارون الرشید کے دل میں یحییٰ کی عزت