تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور محبت بڑھتی چلی گئی۔ یحییٰ نے یہ بھی احتیاط رکھی کہ ہارون کی آزاد مرضی اور دلی خواہش میں کسی مقام پر بھی یحییٰ کا اختیار سد راہ محسوس نہ ہونے پائے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ یحییٰ کا کام صرف ہارون کی خواہش اور منشاء کو کامیاب بنانے کی سعی بجا لانا ہے اور بس۔ لیکن یحییٰ نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے غیر محسوس طریقے پر اپنے خاندان والوں‘ اپنے بھائیوں‘ بھتیجوں اور اپنے ہم خیال ایرانیوں کو ذمہ داری کے عہدوں‘ اہم ولایتوں کی حکومتوں اور فوجوں کی سرداریوں پر مامور و مقرر کرنا شروع کیا۔ اپنے بیٹوں فضل و جعفر وغیرہ کو اس نے ہارون الرشید کا بھائی بنا ہی دیا تھا‘ ہارون بھی یحییٰ کے بیٹوں کو اپنا بھائی کہتا اور انھیں سب سے زیادہ اپنا عزیز و رفیق جانتا تھا۔ اپنے بیٹوں کو ہارون نے فضل و جعفر کی اتالیقی میں دے دیا تھا۔ ۱۷۴ھ میں جب کہ یحییٰ بوڑھا اور ضعیف ہو گیا تھا ہارون نے اس کے بیٹے فضل کو مہمات وزارت میں اس کا مددگار و شریک بنا دیا تھا۔ جب یحییٰ بن عبداللہ نے ۱۷۶ھ میں دیلم میں خروج کیا ہے تو فضل بن یحییٰ ہی نے اس مہم کو طے کیا تھا ۔۔۔۔۔ اور یحییٰ بن عبداللہ کے لیے جاگیر مقرر کرائی تھی۔ چند روز کے بعد ہارون نے یحییٰ بن عبداللہ کو جعفر بن یحییٰ ہی کے سپرد کر دیا کہ اپنے پاس نظر بند رکھو۔ فضل کو ہارون نے ۱۷۸ھ میں خراسان و طبرستان ورے و ہمدان کا گورنر بھی بنا دیا تھا۔ فضل بن یحییٰ کو ہارون نے اپنے بیٹے امین کا اتالیق بنایا تھا۔ یحییٰ نے اپنی گورنری خراسان کے زمانہ میں پانچ لاکھ ایرانیوں کی ایک نہایت زبردست اور آراستہ فوج تیار کی۔ مگر ایک ہی سال کے بعد ۱۷۹ھ میں ہارون نے اس کو خراسان سے بلا کر مستقل وزیراعظم بنا دیا۔ مگر یحییٰ سے اہم معاملات میں ضرور مشورہ لیا جاتا تھا۔ یعنی وہ بھی بدستور مہمات سلطنت میں دخیل رہا۔ یحییٰ کا دوسرا بیٹا جعفر ہارون الرشید کا مصاحب خاص اور نہایت بے تکلف دوست تھا۔ ہارون سفر و حضر میں اس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ جعفر نہایت خوش مزاج اور سلیقہ شعار تھا۔ ۱۷۶ھ میں جعفر کو محلات شاہی کی داروغگی کے علاوہ ملک مصر کی گورنری بھی عطا ہوئی تھی۔ جعفر نے اپنی طرف سے مصر کی حکومت پر عمران بن مہران کو روانہ کر دیا تھا اور خود ہارون کی خدمت میں رہتا تھا۔ ۱۸۰ھ میں دمشق و شام میں فسادات پیدا ہوئے تو جعفر ہی نے جا کر ان کو فرو کیا۔ پھر ہارون نے جعفر کو خراسان کی گورنری عطا کی۔ مگر ایک مہینہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ خاص بغداد کی حکومت و کوتوالی اس کے سپرد کی۔ جعفر نے یہ کام ہرثمہ بن اعین کے سپرد کیا اور خود بدستور ہارون الرشید کا مصاحب رہا۔ ہارون الرشید نے یحییٰ بن خالد کو بلا کر کہا کہ آپ فضل سے کہہ دیں کہ وہ قلم دان وزارت جعفر کے سپرد کر دیں کیونکہ مجھ کو فضل سے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ وہ وزارت کا کام جعفر کو سپرد کر دیں۔ چنانچہ یحییٰ نے فضل سے ہارون کا منشاء ظاہر کیا اور جعفر وزیراعظم ہو گیا۔ اس بات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس خاندان کا ہارون پر کس قدر قوی اثر تھا۔ جعفر بن یحییٰ نے اپنے عہد وزارت میں سلطنت کے تمام عہدوں اور تمام صیغوں پر اس طرح تسلط جما لیا کہ حقیقتاً وہی سلطنت کا مالک اور اصل فرمانروا سمجھا جانے لگا۔ بغداد کی تمام پولیس بغداد کے بڑے بڑے محلات سب اس کے قبضہ میں تھے۔ ولایتوں کے عامل‘ صوبوں کے گورنر فوج کے افسر سب اسی کے آوردے تھے۔ خزانہ کا وہی