تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
پر چڑھائی کی تو وہاں سے کچھ لونڈیاں بھی گرفتار ہو کر آئیں۔ ان میں اس برمک دوم کی بیوی بھی تھی جو قتیبہ بن مسلم کے بھائی عبداللہ بن مسلم کے حصے میں آئی تھی۔ چند روز کے بعد جب اہل بلخ سے صلح ہوئی تو یہ تمام لونڈیاں اور قیدی واپس کئے گئے‘ چنانچہ عبداللہ بن مسلم کو بھی یہ عورت واپس کرنی پڑی۔۱؎ اس عورت نے رخصت ہوتے وقت عبداللہ سے کہا کہ میں تجھ سے حاملہ ہو گئی ہوں۔ برمک کے یہاں پہنچ کر اس عورت کے پیٹ سے لڑکا پیدا ہوا۔ یہی لڑکا جعفر برمکی کا دادا تھا‘ جس کا نام خالد تھا۔ ممکن ہے یہ روایت بھی اسی قسم کی فرضی کہانی ہو جیسی کہ عجائب پسند اور عجائب پرست لوگ تصنیف کیا کرتے ہیں۔ بہرحال برمک دوم کے یہاں ۸۶ھ یا ۸۷ھ میں خالد پیدا ہوا۔ ۱۶۴ھ میں امام ابراہیم عباسی نے ابو مسلم خراسانی کو خراسان کے دعاۃ کا افسر و مہتمم بنا کر بھیجا۔ ابو مسلم نے خالد بن برمک کو جب کہ اس کی عمر چالیس سال کے قریب تھی‘ اپنی جماعت میں شامل کیا۔ ابو مسلم کو خالد برمک ۱؎ باوجود خرابیوں کے مسلمانوں کا اخلاقی رویہ بہت بہتر تھا‘ یہ واقعہ اس کی واضح عکاسی کر رہا ہے۔ کے ساتھ بہت محبت تھی اور اس کی خصوصی توجہ خالد کی تربیت اور افزائش مرتبت میں صرف ہوتی تھی۔ ابو مسلم نے جب خراسان سے ایک شخص کو بھیج کر ابو سلمہ خلال معروف بہ وزیر آل محمد کو قتل کرا دیا تو سفاح کو لکھا کہ آپ اب خالد بن برمک کو اپنا وزیر بنا لیں۔ چنانچہ عبداللہ سفاح پہلے عباسی خلیفہ نے خالد بن برمک کو اپنا وزیر بنا لیا اور سفاح کی وفات تک خالد بن برمک وزیر رہا۔ سفاح کے بعد منصور عباسی تخت نشین ہوا تو اس نے بھی خالد کو وزارت پر قائم رکھا۔ منصور نے اپنی خلافت کے پہلے ہی سال ابو مسلم کو جو خالد کا مربی و ہم خیال و محسن تھا قتل کرا دیا۔ خالد نے ابو مسلم کے قتل ہونے پر اپنے کسی عمل سے اپنی دلی ناراضی اور ملال کا اظہار نہ ہونے دیا۔ مگر منصور نے پھر بھی احتیاطاً قتل ابو مسلم سے چار پانچ مہینے کے بعد خالد کو کسی بغاوت کے فرو کرنے کے بہانے سے روانہ کر کے ابو ایوب کو اپنا وزیر بنایا۔ چونکہ خالد سے کوئی علامت سرکشی اور بے وفائی ظاہر نہیں ہوئی تھی اس لیے خلیفہ منصور نے ایک کار گزار اور قابل شخص سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی۔ خالد کے آئندہ طرز عمل نے منصور کو مطمئن کر دیا۔ چونکہ وہ ابو مسلم جیسے سازشی‘ باہمت اور ابوالعزم شخص کا شاگرد رشید اور سیاسی معاملات میں خوب تجربہ کار تھا۔ ایرانی عصبیت بھی اس کے دل میں موجود تھی‘ ابو مسلم کا انجام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا لہٰذا وہ ابو مسلم سے بھی زیادہ گہرا بن گیا اور منصور جیسے چوکس رہنے والے اور ادا شناس خلیفہ سے بھی اپنے اصلی رنگ کو چھپا لینے میں کامیاب ہو گیا۔ موصل کی ولایت کا والی اور منصور کے بیٹے مہدی کا اتالیق رہا‘ اور اپنے وقار و مرتبہ کو آخر عمر تک قائم رکھا۔ خلیفہ مہدی کا اتالیق ہونا اس کے اور اس کے خاندان کے لیے بے حد مفید اور ضروری تھا۔ کچھ بعید نہیں کہ اس نے خود اس بات کی کوشش کی ہو کہ مہدی کی اتالیقی اس کو مل جائے۔ مہدی کی تخت نشینی اور منصور کی وفات کے بعد بھی خالد زندہ تھا۔ اب اس کے عزت و مرتبہ میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مہدی کے عہد خلافت یعنی ۱۶۳ھ میں قریباً ۷۷ سال کی عمر میں خالد کا انتقال ہوا۔ اس