تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آتش کدے کے امام یا متولی کو مغ کہتے تھے۔ ان مغوں میں جو سب سے بڑا اور سب کا افسر اور اپنے صوبہ کے تمام آتش کدوں کا مہتمم اور مرکزی آتش کدہ کا مغ ہوتا تھا وہ برمغ کہلاتا تھا۔ ایران کے چار مرکزی آتش کدوں میں سے ایک آتش کدہ نوبہار تھا۔ اس آتش کدہ کو سب سے شہرت و عظمت حاصل تھی۔ کیونکہ بلخ لہرا سپ کا مقتل‘ اور زردشت کی قیام گاہ‘ اور دین زردشتی کا مرکز سمجھا جاتا تھا‘ اس لیے نوبہار کے برمغ کی عزت و عظمت آتش پرستوں اور ایرانیوں میں یقینا بہت بلند ہو گی۔ ۳۱ھ میں مسلمان فتح مندوں کا سیلاب مرو کی طرف سے بڑھتا‘ میدانوں کو سمیٹتا اور پہاڑوں کو لپیٹتا ہوا بلخ تک پہنچا اور وہ آگ جس کی نسبت مشہور تھا کہ ہزاروں برس سے برابر روشن چلی آتی ہے‘ افسردہ ہو گئی۔ نہ آتش پرست رہے نہ آتش کدہ کی ضرورت رہی۔ نہ برمغ صاحب کی عزت و توقیر کرنے والا کوئی گروہ تھا نہ ان کی آمدنی و آسائش کے سامان رہے۔ مگر وہ اپنے اسی خطاب یعنی برمغ کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ فتح مند اہل عرب اس نام کو برمک کہنے لگے۔ اس موقعہ پر یہ خیال کرنا غلطی ہو گی کہ اہل عرب نے نوبہار کو مسمار و منہدم کر کے آتش پرستوں کو عبادت سے روک دیا اور زبردستی مسلمان بنا لیا تھا۔ مسلمان اگر زبردستی آتش پرستوں کو مسلمان بناتے تو سب سے پہلے برمک کو مسلمان بناتے۔ لیکن انھوں نے برمک سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیا ۱؎ آتش پرستوں یعنی مجوسیوں کے دو ’’خدا‘‘ تھے : خدائے یزداں اور خدائے اہرمن… ایک نیکی کا خدا اور دوسرا بدی کا۔ یہ تصور اور نظریہ کس قدر فاسد‘ لا یعنی اور خلاف دین و عقل ہے‘ وہ ظاہر ہے۔ ۲؎ ایران کے بادشاہ کو لوگ شہنشاہ کہتے تھے حالانکہ شہنشاہ تو اللہ وحدہ لا شریک لہ کی ذات جلیل و کمال ہے۔ بلکہ آتش پرست خود ہی اسلام میں داخل ہوتے اور اپنے مذہب کو چھوڑتے جاتے تھے‘ اور اسی تبدیلی مذہب کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کو حیرت انگیز سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل ہوئیں۔ مسلمانوں کا بلخ تک پہنچنا گویا مذہب اسلام کا بلخ تک پہنچنا تھا۔ جس کا لازمی نتیجہ آتش کدہ نو بہار کی بربادی اور اس کے مغ کی تباہ حالی تھا۔ برمک چونکہ مذہبی پیشوا تھا اس لیے اس نے مذہب اسلام قبول نہ کیا۔ کیونکہ اسلام کے اس ملک میں آنے سے اس کو ہر قسم کا نقصان پہنچا تھا اور وہ مسلمانوں کو طیش و غضب کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ مسلمانوں کے آنے کے بعد سرحد چین کے مغل اور ترک قبائل جو ایرانیوں کی قوم اور مذہب سے کوئی تعلق نہ رکھتے مگر ایرانی شہنشاہی کے رعب سے بلخ پر حملہ آور نہ ہو سکتے تھے اب بلخ پر چھاپے مارنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہی مغل سردار مسلمانوں کو جزیہ دینے کا اقرار کر کے بلخ پر حکمرانی کرنے لگے اور بعد میں قوت پا کر مسلمانوں کے لیے موجب مشکلات بھی ہونے لگے۔ ان مغلوں نے بلخ میں آتش پرستی کے تمام سامانوں کو مٹایا اور خاندان برمک کو ذلیل کر کے ادنیٰ طبقہ میں پہنچایا۔ عربوں نے پہلی مرتبہ اس طرف آ کر زیادہ دنوں قیام نہیں کیا‘ اور اندرونی جھگڑوں نے ان کو سرحدوں کی طرف زیادہ متوجہ ہی نہ ہونے دیا اور بلخ مغلوں کا تختہ مشق بنا رہا۔ وہ برمک جو نوبہار کا مغ اور مجوسی سلطنت کا زمانہ دیکھے ہوئے تھا‘ فوت ہو گیا۔ اس کا بیٹا بھی جو دین زردشتی کا پیرو تھا اسی نام سے مشہور ہوا۔ اس دوسرے برمک نے نوبہار کی بہار کا زمانہ نہیں دیکھا تھا۔ ۸۶ھ میں جب قتیبہ بن مسلم گورنر خراسان نے بلخ