تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چلے …اسی طرح عتبہ بن ربیعہ بھی اپنے ہمراہ عبد مناف کے چند لوگوں اور ہند کو مع اس کی ایک سہیلی کے لے کر روانہ ہوا‘ کاہن کے پاس ان لوگوں نے پہنچ کر کہا کہ ان دونوں عورتوں کے معاملہ کی طرف توجہ کیجئے۔ ۱؎ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام بداً غریباً کاہن اول ہند کی سہیلی کے پاس گیا‘ اور اس کے دونوں مونڈہوں پر کچھ ضربیں لگا کر کہا کہ اٹھ‘ پھر ہند کے پاس آیا اور اس کو بھی مار کر کہا‘ اٹھ‘ نہ تجھ سے کوئی بدی سرزد ہوئی ہے نہ تو نے زنا کیا ہے‘ اور تو ایک بادشاہ کو جنے گی‘ جس کا نام معاویہ ہو گا۔ فاکہ نے یہ سن کر ہند کا ہاتھ پکڑ لیا‘ مگر ہند نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا کہ اگر میرے پیٹ سے کوئی بادشاہ ہونے والا ہے تو وہ تیرے نطفہ سے نہ ہو گا۔ چنانچہ اس تصدیق بے گناہی کے بعد ہند نے فاکہ سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ اس کے بعد ابو سفیان بن حرب نے ہند سے شادی کر لی‘ اور معاویہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے وقت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی‘ ابوسفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دس سال عمر میں بڑے تھے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں لڑکپن ہی سے ایسے علامات پائے جاتے تھے‘ جس سے لوگ ان کو کسرائے عرب کہتے تھے‘ ان کی دانائی‘ خوش تدبیری‘ سلامت روی اور اعتدال پسندی کی خاص طور پر شہرت تھی‘ وہ طویل القامت‘ سرخ و سفید رنگ‘ خوبصورت‘ اور مہیب آدمی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ عرب کے کسریٰ ہیں‘ جس روز معاویہ رضی اللہ عنہ تم میں سے اٹھ جائیں گے تو تم دیکھو گے کہ بہت سے سر جسموں سے جدا کئے جائیں گے۔ آخر عمر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ کسی قدر بڑھ گیا تھا اور ممبر پر بیٹھ کر خطبہ سناتے تھے‘ بیٹھ کر خطبہ سنانے کی ابتداء امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی سے ہوئی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خوب پڑھے لکھے آدمی تھے‘ فتح مکہ کے روز اپنے باپ ابو سفیان کے ہمراہ آکر پچیس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے‘ اور پھر وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے‘ جنگ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک تھے‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں تشریف لا کر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے‘ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مدینہ میں آئے اور کاتب وحی مقرر ہوئے‘ کتابت وحی کی خدمت کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے وفود کی مدارت اور ان کے قیام و طعام کا اہتمام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ شام کی طرف بھیجا‘ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک دستہ فوج دے کر ان کا کمکی مقرر کیا‘ فتوحات شام میں انہوں نے اکثر لڑائیوں کے اندر بطور مقدمہ الجیش کا رہائے نمایاں انجام دیئے اور اپنی شجاعت و مردانگی کا سکہ دلوں پر بٹھایا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو علاقہ اردن کا مستقل