تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے صحابی ارو ذات النطاقین۱؎ کی اولاد ہے‘ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تحنیک کی‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جب کبھی اس سے دن میں ملا ہوں تو اس کو روز دار پایا ہے‘ اور جب رات کو اسے دیکھا تو نماز ہی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘ یاد رکھ جو اس سے مخالف ہو کر لڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ دوزخ میں گرائے گا۔ لیکن تعجب ہے کہ جب عبدالملک تخت پر بیٹھا تو اس نے حجاج کو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے لڑنے کو بھیجا‘ اور اس نے ان کو قتل کر ڈالا۔ جریج کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی شہادت کے بعد عبدالملک نے خطبہ پڑھا‘ اس میں حمد و ثنا کے بعد کہا کہ: ’’میں نہ خلیفہ ضعیف یعنی عثمان رضی اللہ عنہ ہوں‘ نہ خلیفہ سست یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ ہوں‘ نہ خلیفہ ضعیف الرائے یعنی یزید ہوں‘ مجھ سے پہلے جو خلیفہ تھے‘ وہ اس مال سے کھاتے پیتے رہے ہیں‘ مجھ سے سوا تلوار کے اس کا علاج اور کچھ نہ ہو گا‘ چاہیئے کہ تمہارے نیزے میری مدد کے لیے بلند ہو جائیں‘ تم مہاجرین کے اعمال سے ہمیں تو مکلف کرتے ہو‘ اور خود ان کی مانند عمل نہیں کرتے‘ یاد رکھو میں تمہیں سخت عذاب سے ہلاک کروں گا اور تلوار ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی‘ تم ذرا دیکھتے جائو‘ میری تلواریں کیا حال کرتی ہیں‘ میں تمہاری تمام باتیں گوارا کر لوں گا مگر حاکم سے جنگ کرنا برداشت نہیں کر سکتا‘ میں ان کے تمام افعال ان کی گردنوں میں ڈال دوں گا‘ پھر چاہے کوئی خوف اللہ تعالیٰ سے ڈرایا کرے‘‘۔ سب سے پہلے عبدالملک ہی نے کعبہ پر دیباج کے پردے ڈالے‘ عبدالملک سے کسی نے کہا کہ امیر المومنین آپ پر بڑھاپا بہت ہی جلد آگیا‘ تو اس نے کہا کیسے نہ آتا‘ میں ہر جمعہ کو اپنی بہترین عقل لوگوں پر خرچ کرتا ہوں‘ عبدالملک سے کسی نے پوچھا‘ کہ آدمیوں میں سب سے بہتر کون ہے‘ اس نے کہا کہ جس شخص نے بلند رتبہ ہو کر تواضع کی‘ اور بحالت اختیار زہدکو ترجیح دی‘ اور بحالت قوت عدل و انصاف سے کام لیا۔ جب عبدالملک کے پاس باہر سے کوئی شخص آتا تو وہ اس سے کہا کرتا‘ کہ دیکھو چار باتوں کا لحاظ رکھنا‘ ایک تو جھوٹ نہ بولنا‘ کیوں کہ مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے‘ دوسرے جو کچھ میں پوچھوں اسی کا ۱؎ یعنی اسماء رضی اللہ عنھا ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یہ خطاب تب دیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کے لیے مکہ سے نکل کر غار ثور میں فروکش ہوئے تھے اور اسماء رضی اللہ عنھا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے لیے کھانا لے کر غارثور میں جاتی تھیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے : صحیح بخاری‘ کتاب مناقب الانصار‘ حدیث ۳۹۰۵۔ جواب دینا‘ تیسرے میری مدح نہ کرنا‘ کیوں کہ میں اپنا حال خود ہی جانتا ہوں‘ چوتھے مجھ کو میری رعیت پر برانگیختہ و مشتعل نہ کرنا‘ کیوں کہ ان کو میری عنایات کی زیادہ ضررورت ہے۔ مدائنی کہتے ہیں‘ کہ جب عبدالملک کو اپنے مرنے کا یقین ہو گیا‘ تو اس نے کہا کہ جب سے میں پیدا ہوا ہوں‘ اس وقت سے لے کر اب تک مجھے یہ آرزو ہے‘ کاش میں حمال ہوتا‘ پھر اپنے بیٹے ولید کو بلایا اور خوف اللہ تعالیٰ کی وصیت کی‘ آپس کی مخالفتوں سے منع کیا اور کہا کہ: ’’لڑائی میں نہایت سرگرمی دکھانا‘ نیک کاموں میں ضرب المثل بننے کی کوشش کرنا‘