تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الاعلان مخالفت کی لیکن کبھی اس طرح مرعوب و خوفزدہ ہوئے کہ عبیداللہ بن زیاد وغیرہ امرائے کوفہ کے ہر ایک جابرانہ حکم کی تعمیل بلا چون و چرا کرنے لگے۔ اس قسم کی متضاد کیفیت و حالات دریافت کرنے کے لیے ہم کو کوفہ کے باشندوں کی حالت و حقیقت سے آگاہ ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کوفہ ان لوگوں کی چھائونی بنائی گئی تھی‘ جو مجوسی سلطنت کے مقابلہ میں بر سر پیکار تھے‘ اس فوج میں ایک حصہ ان لوگوں کا تھا جو حجاز و یمن‘ اور حضرموت وغیرہ صوبوں کے رہنے والے تھے‘ یہ لوگ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اعلان عام پر مدینہ منورہ میں آکر جمع ہوئے‘ اور ان کے حکم کے موافق عراق کی طرف بھیج دیئے گئے تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے‘ جو عرب کے ان صوبوں کے باشندے تھے جو عراق کی سرحد پر واقع اور بمقابلہ مدینہ کے کوفہ یا بصرہ سے قریب تر تھے‘ یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہاتھ پر مسلمان ہو ہو کر اسلامی لشکر میں شریک ہو گئے تھے‘ اور مدینہ منورہ سے کوئی خصوصی تعلق ان کو حاصل نہ ہو سکا تھا‘ نہ انہوں نے کبھی مدینہ دیکھا تھا۔ کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کی زبان تو عربی تھی‘ مگر وہ مجوسی سلطنت کی رعایا تھے‘ اور اب مسلمان ہو کر اور مسلمانوں کے طرز حکومت کو بہتر پا کر دل سے مسلمانوں کے حامی ہو گئے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایرانیوں سے لڑتے تھے۔ کچھ وہ سردار تھے جو مدینہ کے رہنے والے مہاجرین و انصار میں سے تھے۔ جب اس لشکر کی چھائونی کوفہ قرار پائی‘ اور خلیفہ وقت کا نائب اور عراقی لشکر کا سپہ سالار کوفہ میں رہنے لگا‘ تو ایرانی شہروں کے بہت سے شہریوں کو ان کی ضرورتوں نے دارالصدور کوفہ سے تعلقات قائم رکھنے پر مجبور کیا‘ اور ایرانیوں کی بھی ایک جماعت کوفہ میں رہنے لگی۔ عرب کے ریگستانوں کی زاہدانہ زندگی کے مقابلے میں کسریٰ و نوشیردان و کیکائوس و کے خسرو کے ملکوں کو فتح کرنے والے لشکریوں کی فاتحانہ و حاکمانہ زندگی جو کوفہ میں بسر ہوئی تھی‘ یقینا بہت خوش گوار ہو گی‘ مال غنیمت کی فراوانی بھی ضرور محرک ہوئی ہو گی‘ لہٰذا اس عطر مجموعہ لشکر کا اکثر و بیشتر حصہ کوفہ ہی میں زمین گیر ہو کر رہ گیا‘ اور کوفہ نہ صرف ایک فوجی چھائونی اور عارضی قرار گاہ رہا‘ بلکہ بہت جلد ایک عظیم الشان شہر بن گیا‘ اور بالآخر اس نے دارالسلطنت اور دارالخلافہ کی صورت اختیار کر لی‘ اس شہر کی آبادی میں چوں کہ فوجیوں کا بڑا عنصر شامل تھا اور علم و تعلم‘ درس و تدریس اور تہذیب اخلاق و تہذیب نفس کے سامان بہت ہی کم تھے‘ لہٰذا مجموعی طور پر شہر کا مزاج متلون اور اخلاقی حالت متغیر رہی‘ ظاہر ہے کہ ایسی بستی میں علوم و معقولات اور فہم و تدبر کو تلاش نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن جذبات سے خوب کام لیا جا سکتا ہے‘ چنانچہ اہل کوفہ ہمیشہ جذبات کے محکوم و مغلوب رہے اور انہوں نے جو کچھ کیا جذبات سے مغلوب و متاثر ہی ہو کر کیا۔ یہی وجہ تھی ‘ کہ جس شخص نے ان کو مشتعل کرناچاہا‘ مشتعل کر دیا‘ جس شخص نے ان کو رضامند کرنا چاہا‘ وہ رضا مند ہو گئے‘ جب کبھی ان کو ڈرایا گیا تو وہ ڈر گئے‘ جب کبھی ان کو کسی کا مخالف بنایا گیا‘ وہ فوراً مخالفت پر آمادہ ہو گئے‘ جب ان کو بہادر بنایا گیا وہ بہادر ہو گئے‘ جب ان کو بے وفائی پر آمادہ کیا گیا وہ بے وفا بن گئے‘ جب