تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بعد شروع ہوتا ہے اس کو باقاعدہ حکومت اور جائز خلافت سمجھنا چاہیئے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو اپنے عہد حکومت میں کوئی ایسا موقع نہیں ملاکہ وہ لڑائیوں اور چڑھائیوں کی فکر سے مطمئن بیٹھے ہوں‘ اس لیے اگر ان کے عہد حکومت میں جدید فتوحات اور اندرونی اصلاحیں ہم کو نظر نہ آئیں‘ تو کوئی تعجب کا مقام نہیں‘ وہ بہت بڑے سپہ سالار اور جنگی شہ سوار تھے‘ ساتھ ہی وہ بڑے مدبر اور حکمران بھی تھے‘ یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ ان کے حریفوں کی تدبیریں ان کے خلاف کامیاب ثابت ہوئیں اور ان کو جام شہادت نوش کرنا پڑا‘ ان کی زندگی کا عملی نمونہ زہد و عبادت کے اعتبار سے بہت ہی قابل تعریف تھا۔ بنو امیہ کے خلفاء میں یہ بات خصوصیت سے نمایاں تھی کہ وہ اپنی خلافت و حکومت کے قیام و استحکام کے لیے روپیہ سے خوب کام لینا جانتے تھے‘ وہ روپیہ کے حاصل کرنے میں بھی خوب مستعد تھے اور اس روپیہ کو اپنے حصول مقصد کے لیے خرچ بھی خوب سلیقہ کے ساتھ کرتے تھے‘ اگر لوگوں میں روپیہ کی محبت پیدا نہ ہو گئی ہوتی‘ تو وہ ہر گز کامیاب نہ ہو سکتے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو ان کے مقابلے میں ہر گز ناکامی حاصل نہ ہوتی‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما اگر عبدالملک بن مروان کی طرح بیت المال کو اپنے دوستوں اور مددگاروں کے لیے وقف کر دیتے اور کمزوروں کا لحاظ نہ کرتے‘ تو ان کے گرد بھی بہت سے شمشیرزن جمع ہو جاتے اور بنو امیہ کو نیچا دیکھنا پڑتا لیکن سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اس خلاف تقویٰ راہ عمل کو ہمیشہ ناپسند کیا‘ اور ان کے لیے یہی موزوں بھی تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبیدہ کاکوفہ میں قتل ہونا ایک بڑا کارنامہ تھا‘ فارس کے فتنہ خوارج کو بھی انہوں نے خوب دبایا اور حتی الامکان ان کوسر نہیں اٹھانے دیا‘ اگر بنو امیہ کے ساتھ اندرونی معرکہ آرائی اور زور آزمائی جاری نہ ہوتی تو وہ بہترین خلیفہ ثابت ہوتے اور شریعت اسلام کو دنیا میں بہت رواج دیتے‘ ان کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حکومت و فرماں روائی کا زمانہ ختم ہو گیا وہ سب سے آخری صحابی تھے جنہوں نے ملکوں پر حکومت کی‘ ان کی زاہدانہ و عابدانہ زندگی ایک مشعل راہ اور نجم ہدایت تھی‘ وہی ایک ایسے خلیفہ تھے جن کا دارالخلافہ مکہ معظمہ تھا‘ نہ ان سے پہلے مکہ معظمہ کبھی دارالخلافہ بنا‘ نہ ان کے بعد آج تک کسی نے مکہ معظمہ کو دارالخلافہ بنایا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ان کے بھائی سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما اوران کے باپ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی بہادریوں کے کارنامے پڑھ کر اور ان کی والدہ سیدنا اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت‘ و حوصلہ مندی دیکھ کر انسان کادل مرعوب ہو جاتا اور دنیا کے شجاعت پیشہ لوگوں کو بے اختیار اس بہادر خاندان کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے‘ خاک و خون میں لوٹنا‘ حمایت حق میں سینے پر برچھیوں اور تیروں کے زخم کھا کر آگے بڑھنا‘ اور دشمنان حق کو تہ تیغ کرنا‘ جیسے دشوار اور مشکل کام ہے‘ اس سے زیادہ مزے دار اور خوش گوار بھی ہے۔ قلب کی قوت‘ ارادے کی پختگی‘ اور ہمت و حوصلہ کی بلندی کے اظہار کا موقع تلواروں کی چمک‘ برچھیوں کی انی اور تیروں کی بارش ہی میں سب سے بہتر میسر آ سکتا ہے۔ ہمارا زمانہ بھی کیسا منحوس وقت ہے کہ صفحات تاریخ میں مومنوں کی بہادری اور