تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر پڑا‘ پوچھا تم نے یہ زرہ کس ارادہ سے پہن رکھی ہے‘ کہا صرف اطمینان و مضبوطی کی غرض سے‘ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا اس کو اتار دو‘ اور معمولی کپڑے پہنے ہوئے دشمنوں سے لڑو‘ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنھما نے وہیں زرہ اتار کر پھینک دی‘ قمیص کے دامن اٹھا کر کمر سے باندھے‘ دونوں آستینیں چڑھائیں اور گھر سے باہر نکل آئے‘ اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ: ’’اے آل زبیر رضی اللہ عنھما تم تلوار کی جھنکار سے خوف زدہ نہ ہونا‘ کیوں کہ زخم میں دوا لگانے کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے بمقابلہ اس تکلیف کے جو زخم پیدا ہونے سے ہوتی ہے‘ تم لوگ اپنی اپنی تلواریں تول لو‘ جس طرح اپنے چہرے کو بچاتے ہو‘ اسی طرح ان کو بھی خون ناحق سے بچائو‘ اپنی آنکھیں نیچی کر لو کہ تلواروں کی چمک سے چکا چوند نہ ہو جائیں‘ ہر شخص اپنے مقابل پر حملہ آور ہو‘ تم مجھے ڈھونڈتے نہ پھرنا‘ اور اگر میری تلاش ہی ہو تو میں سب سے آگے دشمنوں سے لڑتا ہوا ملوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر شامیوں پر ایک سخت حملہ کیا‘ صفوں کو چیرتے لوگوں کو مارتے اور گراتے ہوئے شامیوں کی پچھلی صفوں تک پہنچ گئے‘ اور پھر اسی طرح لشکر شام کے سمندر میں تیرتے ہوئے واپس آگئے‘ حجاج ہر چند لوگوں کو ترغیب دے رہا تھا‘ مگر کوئی شخص سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے مقابل ہونے کی جرات نہ کرتا تھا‘ آخر حجاج نے خود پیدل فوج لے کر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے علم بردار کو گھیر لیا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے فوراً حملہ کر کے اپنے علمبردار کو دشمنوں کے نرغہ سے نکالا اور دشمنوں کو پیچھے ہٹا دیا‘ واپس آکر مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی‘ حجاج نے پھر حملہ کیا اور باب بنو شیبہ پر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا علم بردار مارا گیا‘ مسجد حرام کے کل دروازوں پر شامی ڈٹے ہوئے تھے‘ مکہ معظمہ کی بھی انہوں نے ناکہ بندی کر لی تھی‘ حجاج و طارق نے ابطح کی جانب مروہ تک گھیر لیا تھا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنھما کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف حملہ کر رہے تھے‘ نماز سے فارغ ہوکر پھر لڑنے لگے‘ باب صفا کی طرف آپ نے حملہ کیا‘ اور شامیوں کو ہٹاتے ہوئے دور تک لے گئے‘ کوہ صفا کے اوپر سے ایک شخص نے تیر مارا‘ پیشانی پر لگا‘ خون بہنے لگا‘ آپ اسی حالت میں برابر لڑتے رہے‘ غرض آپ نے اور آپ کے ہمرائیوں نے صبح سے بعد ظہر تک شامیوں کے قتل کرنے میں وہ چابک دستی اور حیرت انگیز شجاعت دکھائی کہ چشم فلک نے آج تک نہ دیکھی تھی‘ آخر ایک ایک کر کے تمام ہمراہی کام آئے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما پر دشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کر دی حالانکہ نیزے اور تلواریں اس سے پیشتر اپنی اپنی کاٹ دکھا چکے تھے۔ بالآخر یوم سہ شنبہ ماہ جمای الثانی ۷۳ھ کو یہ دنیا کا عظیم الشان بہادرو متقی انسان شہید ہوا‘ بہادری و شجاعت زہد و عبادت اور ہمت و شرافت وغیرہ کے سوا کوئی انسان اس میدان میں ان کی لاش پر کف افسوس ملنے والا نہ تھا‘ لشکر شام نے اس مردہ شیر ببر کا سرکاٹنے میں بڑی عجلت و چابک دستی سے کام لیا‘ حجاج کے سامنے لے گئے‘ تو اسی قوت اس نے سجدہ شکر ادا کیا‘ اور لشکر سے نعرہ تکبیر بلند ہوا‘ لاش اسی جگہ یعنی مقام حجون میں دار پر لٹکا دی گئی اور سر عبدالملک کے پاس بھیجا گیا‘ ایک دوسری روایت کے موافق سر عبدالملک کے پاس نہیں بھیجا گیا‘ بلکہ خانہ کعبہ کی دیواریا پرنالہ