آۓ کہ ان کی وجہ سے کچھ آوارہ خیال لوگوں نے اپنے ہاتھ میں میزان انصاف لے رکھی ہے وہ بزعم خود کچھ صحابہ کو مدعی اور کچھ کو مدعا علیہ بنا کر انصاف کے لئے بیٹھ گئے ہیں اور ان کی زبان صحابہ کے بارے میں نقد و احتساب کے لۓ کھل جاتی ہے، یہ ایک شدید قسم کی گمراہی ہے خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کے بارے میں جس احتیاط کی ہدایت فرمائی ہے اس کی خلاف ورزی ہے اور دین کو نقصان پہونچانے میں دانستہ یا نا دانستہ شریک ہونا ہے اللہ ہماری حفاظت فرماۓ ۔
اسی طرح بعض صحابہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں اہل تشیع کے طریق پر مبالغہ اور غلو سے کام لینا جائز نہیں مثلا " مولاعلی" المدد یا علی" یا خود "یاعلی" کا نعرہ ۔۔۔۔۔ کہ اس طرح کی باتوں میں کفر تک کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح خاص کر حضرت علی یا حضرت حسین کے ساتھ علیہ السلام کا لفظ لکھنا بھی مناسب نہيں ۔ خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اس کی ممانعت منقول ہے۔
انکار حدیث
ہمارے زمانہ کے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ انکار حدیث بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کا حجت ہونا قرآن کی صراحتوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے غبار ارشادات و فرمودات سے ثابت ہے کسی حدیث کے سند یا متن میں ضعف کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اس کی نسبت کو صحیح نہيں مانتا، یا مختلف معانی کے احتمال پاۓ جانے کی صورت میں کسی خاص قرینہ کی بناء پر ظاہری معنی سے انحراف کرنا اور توجیہ و تاویل کی راہ اختیار کرنا اور بات ہے اور یہ عہد صحابہ رضی اللہ عنھم سے جاری و ساری ہے