حَلالہ
اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ طلاق مغلظہ کے بعد وہ عورت اپنے شوہر کے لئے اس وقت حلال ہو گی جب:
1۔ ابھی اس وقت جو طلاق واقع ہوئی ہے اس کی عدت گذر جائے۔
2۔ پھر کسی اور مرد سے صحیح طور نکاح کرے۔
3۔ نکاح کے بعد وہ مرد اس سے جنسی ملاپ کرے۔
4۔ پھر وہ اپنے طور پر طلاق دے دے یا اس کی موت ہوجائے۔
5۔ اور عورت اس شوہر کی موت یا طلاق کی عدت گذار لے۔
اسی کو "حلالہ" بھی کہتے ہیں۔ (البقرۃ : 230)
آج کل ایک غلط رسم یہ چل پڑی ہے کہ لوگ اسی نیت سے نکاح کرتے یا کراتے ہیں کہ مباشرت کے بغیر یا مباشرت کے بعد طلاق دیدیں گے اور عورت پھر اپنے سابق شوہر کیلئے حلال ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔تو اگر مباشرت کے بغیر ہی طلاق دیدی تب تو وہ اپنے سابق شوہر کیلئے حلال ہی نہیں ہوگی اس لئے کہ دوسرےشوہر کاہم بستر ہونا ضروری ہے اور حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے (1)اور اگر مباشرت کے بعد طلاق دی تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال تو ہو جائے گی مگر جس شخص نے حلالہ کی نیت سے نکاح کیا تھا اور جس نے کرایا تھا دونوں ہی سخت گناہگار ہوں گے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو (2) ہاں اگر کسی نے ایسی نیت کے بغیر نکاح کیا اور یوں ہی کسی وجہ سے طلاق دیدی تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
(1) حدیث میں حضرت رفاعہ اور ان کی بیوی کا واقعہ صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ بخاری عن عائشہ باب من اجاز طلاق الثلاث ص: 791
(2) ابن ماجہ۔