مشقت کی ایسی صورتوں میں جو اجتماعی بن گئی ہوں، حکم نسبتاً زیادہ خفیف ہے۔
اشخاص و افراد کے لئے سودی قرض کب حاجت بن جاتا ہے اور کب نہیں؟ اس کا اندازہ ان کے شخصی حالات، ان کے علاقے اور خاندان کے معیارِ زندگی سے کیا جائے گا (۱)۔
رہن کے مال سے فائدہ اٹھانا۔
اسلام نے سود کا دروازہ بند کر نے کے لئے قرض کا دروازہ کھولا ہے۔ بلکہ قرض کے ذریعہ غریبوں اور کمزوروں کی مدد کی حوصلہ افزائی کی ہے اور زکوٰۃ کی ایک مستقل مد مقروضوں کی اعانت کو قرار دیا ہے (وللغارمین) قرض پر بطور وثیقہ اور ثبوت کے رہن رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور یہ بھی قرآن ہی نے بتا دیا ہے کہ مال مرہون پر قبضہ ہی برقرار رکھنے کا حق ہو گا، نفع اتھانے کا حق نہیں ہو گا۔ " وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ ﴿البقرہ-٢٨٣﴾۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس رہن رکھ کر کچھ کھانے کی اشیاء خرید فرمائی ہے (۲) لیکن چونکہ اسلام میں قرض پر کسی بھی طرح کا نفع اٹھانا حرام ہے اور پیغمبرِ اسلام نے اس کو سود قرار دیا ہے "کل قرض جرنفعا فھورباً" اور سود کے بارے میں حقیقتِ سود تو کجا شبہ سود بھی ناقابلِ برداشت ہے، اس لئے رہن کے سامان سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہو گا۔
اس میں شبہ نہیں کہ بعض فقہاء احناف نے مالک کی اجازت سے
------------------------------------------------------
(۱) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مقالہ "بینک انٹرسٹ، سودی قرض اور ہندوستان کی شرعی حیثیت۔ جدید فقہی مسائل حصہ دوم ۷۶ - ۲۷۳۔
(۲) بخاری عن عائشہ رضی اللہ عنہا، کتاب الرہن، باب من رہن درعہ۔