الجواب و باللہ التوفیق :
ذبیحہ کے سلسلے میں شریعت نے چند بنیادی ہدایات دی ہیں اور وہ کسی بھی ذبیحہ کی حلت و حرمت کے لئے مدار اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔
اول یہ کہ ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو۔ کتابی سے مراد وہ شخص ہےجو خدا، نبوت اور وحی وغیرہ پر ایمان رکھتا ہو۔ چنانچہ خود ارشادِ خداوندی ہے "وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم"۔
دوسرے یہ کہ وہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہے اور بسم اللہ کا مفہوم بھی سمجھتا ہو، چنانچہ قرآن مجید نے کہا "ولا تأکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ"۔
بسم اللہ کا مفہوم سمجھنا کیوں ضروری ہے؟ یہ ظاہر ہے، کیوں کہ جو شخص اس کا مفہوم ہی نہ سمجھتا ہو اس کے بسم اللہ کہنے کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔ مشہور فقیہ صاحبِ ہدایہ کہتے ہیں "ویحل اذا کان یعقل التسمیۃ (ہدایہ ۴/۴۱۸، کتاب الذبائح)۔
تیسرے بعض روایات کی روشنی میں فقہاء نے ان رگوں اور نالیوں کی تعیین کی ہے جن کا ذبح کے دوران کٹنا ضروری ہے۔ یہ کل چار ہیں (۱) مرئی یعنی سانس کی نالی (۲) حلقوم یعنی غذا کی نالی (۳أ۴) ووجین، یعنی دونوں شہ رگ جن کا ذریعہ اچھی طرح خون کا اخراج ہو سکتا ہے۔ ان چاروں رگوں اور نالیوں کو کاٹا جانا چاہیے۔ فقہاء اسلام میں امام مالک رحمۃ اللہ کے نزدیک چاروں ہی کو کاٹا جانا ضروری ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک تین رگیں بھی کاٹ دی جائیں تو کافی ہے (ہدایہ ۴/۴۲۱)۔
چوتھے مختلف جانوروں کے ذبح کرنے کے لئے الگ الگ چھرے اور آلۂ ذبح کا استعمال ضروری نہیں، اس کا اندازہ حصکفی کی اس عبارت سے ہوتا ہے "حتی لواضجع شاتین احدا ھما فوق الاخریٰ فذبحہما ذبحۃ واحدۃ بتسمیۃ