لا تحل الذبیحۃ من تعمد تراث التسمیۃ مسلماً کان او کتابیاً (۱) ۔ مسلمان کی طرح اگر کتابی بھی اپنے عقیدہ کے مطابق جانور پر غیر اللہ مثلاً حضرت مسیح وغیرہ کا نام لے لے تو ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ اس کا کھانا حرام ہو گا (۲)۔
بِسم اللہ کہنے کا طریقہ
جانور پر بسم اللہ کہنے کا جو معروف طریقہ سلف کے یہاں رہا ہے وہ یہی ہے کہ "بسم اللہ واللہ اکبر" کہا جائے (۳)۔ تاہم اس کے لئے کوئی خاص کلمہ مقرر نہیں ہے، حدیثوں میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہی کہ اللہ کا نام لیا جانا چاہیے اور بس۔ اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی اور نہ کسی خاص لفظ کی تحدید۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا اسم ذاتی یا اسم صفاتی رحمٰن، رحیم وغیرہ تنہا لے لیا جئاے یا تسبیح، تحمید کا کلمہ پڑھ لیا جائے، لَا الٰہ الّا اللہ کہا جائے، خدا کا نام عربی زبان میں لیا جائے یا کسی اور زبان میں، تمام صورتیں جائز اور درست ہیں (۴)۔
ہاں یہ ضروری ہے کہ خود ذبح کرنے والا اللہ کا نام لے، اگر اس کی طرف سے کوئی دوسرا بسم اللہ کہدے یا دو آدمی ذبح کریں، ایک کہے اور دوسرا چھوڑ دے تو یہ کافی نہیں۔ ایسے ذبیحہ کا کھانا حرام ہو گا (۵)۔
یہ بھی ضروری ہے کہ خاص فعل ذبح کو انجام دینے ہی کی نیت سے اللہ کا نام لے، اگر بطور شکر کے "الحمد للہ" کہہ دے، چھینک کا جواب دے یا یوں
------------------------------------------------------------------
(۱) شامی ۵/۱۹۰۔
(۲) المغنی ۹/۳۲۱۔
(۳) ابو داؤد ۲/۳۸۸، باب فی الشاۃ یضحی بہا جماعۃ۔
(۴) بدائع ۵/۴۸۔
(۵) شامی ۵/۱۹۲۔