ان کے بارے میں صریح حکم موجود نہیں بلکہ ایسے اصول وقواعد کی طرف رہنمائی کردی گئی ہے کہ ان کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ واقعات اور نوپید مسائل کے بارے میں حلال یا حرام ہونے کا حکم متعین کیا جاسکتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ ایک ایسا دین جس کو قیامت تک کے لئے باقی رہنا تھا وہ صرف جزوی واقعات اور ان کی تفصیلات پر مشتمل نہیں ہو سکتا ، ان کا احاطہ دشوار بھی ہے اور اکثر اوقات مستقبل میں پیش آنے والے جزئی واقعات کا اظہار انسان کی عقل کوتاہ کےلئے نا مناسب بھی ہے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ ایک ایسے دین میں بنیادی خطوط ،مقاصد اور شریعت کے مزاج و مذاق کی بنیادوں کو اس طرح واضح کر دیا جائے کہ ہر دور میں پیش آنے والے مسائل کو ان پر منطبق کیا جا سکے اور ان رہنما اصولوں کو فیصلوں کی بنیاد واساس بنایا جا سکے ۔
قرآن وحدیث میں ایسے بے شمار اصول وقواعد موجود ہیں ۔ بعض جگہ ان کی صراحت کردی گئی ہے اور بعض جگہ اہل علم نے اجتہاد واستنباط کے ذریعہ ان کو دریافت کیا ہے۔۔۔۔۔ حلال و حرام کے سلسلہ میں بھی فقہاء کے یہاں بعض قواعد ملتے ہیں جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ مناسب ہوگا کہ ان میں بعض اہم اور ضروری قواعد کا ذکر کر دیا جائے ۔
1۔ چیزیں اصلاََ مباح وحلال ہیں
قرآن مجید میں متعدد مواقع پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خدا نے