طلاق کس طرح دی جائے؟
پھر اب بھی ایک دفعہ تین طلاقیں نہ دےدے بلکہ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ پاکی کی حالت میں (جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو) لفظ "طلاق" کے ذریعہ صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس طلاق کے بعد اس کو یہ حق رہے گا کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے تک اگر اپنے فیصلہ پر پشیمانی یا عورت کی طرف سے ندامت کا اظہار اور بہتر زندگی کا وعدہ ہو تو بیوی کو لوٹا لے اور اگر وہ علٰیحدگی کے فیصلہ پر اٹل رہے تو یوں ہی چھوڑ دے، عدت گزرنے کے بعد خود بخود یہ رشتہ ختم ہو جائے گا۔
اگر اب بھی پشیمانی ہوئی اور زوجین کو خیال آیا کہ اس رشتہ کو باقی رہنا چاہیے تو ازسِر نو نکاح کر سکتا ہے۔ اگر پھر طلاق کی نوبت آئی تو پھر بھی بیوی کو لوٹانے کی گنجائش باقی رہے گی لیکن اگر اس کے باوجود اصلاحِ حال نہ ہو پائے تو آخری چارۂ کار کے طور پر تیسری بار طلاق دے سکتا ہے لیکن یہ اجازت بالکل آخری درجہ میں ہے۔ ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دیدینا سخت گناہ اور معصّیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بار ایک ہی شخص کو بیک وقت تین طلاق دینے کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوش غضب سے میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں اور کتاب اللہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خفا تھے کہ ایک صحابہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل ہی نہ کر ڈالوں؟ (۱)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو ایسے شخص کو کوڑے بھی لگائے ہیں (۲)۔
لیکن اگر ایک ہی مجلس میں یا عورت کے ایک ہی طہر میں تین مختلف اوقات میں تینوں طلاقیں دے ہی دی جائیں تو تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ حضرت حفص بن مغیرہ
--------------------------------------------------------------------
(۱) نسائی عن محمود بن لبید، باب الثلث المجموعہ ۔۔۔۔ فیہ من التغلیظ ۲/۹۹۔
(۲) بیہقی۔