ہے(ابنِ ماجہ 149/2، باب المظاہر یجامع قبل ان یکفر، عن ابن عباس) خود قرآنِ مجید نے وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا(سورة نور:31) کہہ کر اشارہ کیا ہے کہ عورتوں کے جسم کے بعض حصوں پر آرائشی زیورات کے استعمال کی گنجائش ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس آرائش کا اظہار شوہر اور محرم رشتہ داروں کے سامنے ہو اور ایسی کھنک نہ ہو جو غیر محرموں کو اس کی طرف متوجہ کر دے.
دراصل شریعت نے عورتوں کے لئے مناسب طور پر زیبائش وآرائش کی اجازت دی ہے، یہ فطرت ِانسانی کے عین مطابق ہے کہ خالقِ تعالیٰ نے مردوں میں جرات و بہادری، طاقت و قوت، حوصلہ و ہمت، تحفظ کی صلاحیت اور اقدام کی قدرت عطا فرمائی ہے نیز فہم و دانش اور معاملہ فہمی و دور اندیشی سے حصہ وافر عطا فرمایا ہے جو اس کی شخصیت کو نکھارتا، ممتاز و نمایاں کرتا اور عورتوں کے لئے باعثِ کشش بناتا ہے، اسی طرح عورتوں میں اِن صفات سے محرومی یا کمی کے بدلہ اس ضنف کے اندر حسن و جمال، لطف و محبت، نازک اندامی، شانِ محبوبیت اور جذبہ آرائش نیز ذوق خودنمائی رکھدی ہے جو اس کو ممتا بھری ماں، محبت کرنے والی بیوی اور ناز کرنے والی بیٹی بناتی ہے اور وہ اپنی صِنفی کمزوری کے باوجود مردوں کے لئے باعث ِکشش اور اس کا قبلہ مقصود قرار پاتی ہے۔ اسی کو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مارايت من ناقصات عقل ودين اذهب للب الرجل الحازم من احد اكن (بخاری 44/1 باب مباشرة الحيض)
زیورات کے پہننے اور تزئین و آرائش کی اجازت دینے کا منشا اصل میں عورت کے اسی جذبہ خلقی اور تقاضہ طبعی کا اعتراف اور مرد کی عفت و پاکدامنی کی رعایت ہے۔
مہندی اور پینٹ: