بہر طور اگر خدا کی مقدر کی ہوئی حلال و طیب رزق کی تلاش مقصود ہو اور خدا کے واجب کیے ہوئے حقوق کی ادائیگی پیش نظر ہو اور ہر موقع اور ہر گام پر خدا کے عدول حکمی سے بچتا ہو، اسی کی رزاقیت پر بھروسہ ہو تو وہ عین حالتِ عبادت میں ہے اور ایک کارِ دین میں مشغول ہے کہ جس خدا کی خوشنودی کی تلاش میں اس نے مسجد میں جبینِ بندگی زمین پر رکھ دی تھی، اسی کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ تجارت گاہوں اور زراعت گاہوں میں اپنے پسینے بھی نثار کر رہا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے غالباً دست بوسی کا ایک ہی واقعہ منقول ہے اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ کو بوسہ دیا جس کی ہتھیلیاں محنت و مشقت کی وجہ سے سخت ہوگئی تھیں۔
اسلام میں کسبِ معاش کی اہمیت
اسی لیے اسلام میں کسبِ معاش کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ دن کی یہ روشنی اسی لیے ہے کہ تلاشِ معاش میں سہولت ہو وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (نباء:۱۱) زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ بھی تمھارے لیے حصولِ معاش کا ذریعہ ہے وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ (اعراف: ۱۰) طلب معاش کو جائز اور درست قرار دیا گیا۔ (بقرہ:۱۹۸) کسب معاش کے لیے سفر کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی (مزمل:۲۰) بلکہ کسب معاش اور اس کے لیے تگ و دو کا حکم فرمایا گیا فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ (جمعہ:۱۰)
احادیث بھی کسب معاش کی فضیلت کے سلسلہ میں بھری پڑی ہیں، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے اور امانت دار تاجر کو فرمایا کہ اس کا حشر انبیاء ، صدیقین