شوہر پربیوی کا ایک خاص مالی حق رکھا ہے جس کو مہر کہا جاتا ہے ، حدیث میں بعض موقع پر صداق یا کسی اور نام سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ، ارشاد خدا وندی ہے کہ عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کردئیے جائیں ، واٰتو النساء صدقٰتہن نحلۃ (نساء:۱۴) بلکہ اسی مہر کے ذریعے ایک خاص معاہدہ کے تحت عورت کی عصمت مرد کے لئے حلال ہوتی ہے ، واحل لکم ما وراء ذلکم ان تبتغو باموالکم (نساء : ۲۴) مرد کو عورت پر ازدواجی زندگی مین جو ایک گونہ بالادستی حاصل ہے اس کی وجہ جہاں مرد کی بعض فطری خصوصیات ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ مہر اور دوسری مالی ذمہ داریاں مردوں کے سر رکھی گئی ہیں ۔ (نساء : ۳۴)
مہر کی مقدار
قرآن مجید نے اس بات کی تو صراحت کردی ہے کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں (نساء:۲۰) حضرت حسن بن علیؓ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ نے ایک خاتون سے نکاح کیا تو اسے سو باندیاں بھیجیں اور ہر باندی کے ساتھ ایک ہزار درہم (۱) مہر کی کم سے کم مقدار کے سلسلہ میں فقہاء کی رائیں مختلف ہیں ، بعض فقہاء کے نزدیک کم سے کم کوئی مقدار مقرر نہیں (۲) بعضوں کا خیال ہے کہ کم سے کم مہر کی مقدار ۱؍۴ دینار (تقریبا ساڑھے چار ماشہ سونا) ہونا چاہیے (۳) امام ابوحنیفہ کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے (۴) ۲تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی کے مساوی ہوتا ہے ۔ ان تمام ہی فقہاء کے پاس اپنی آراء کے لئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) مجمع الزوائد ۴؍۲۸۴ ، باب الصداق بحوالہ طبرانی عن ابن سیرین و رجالہ رجال صحیح
(۲) المغنی ۷؍۱۶۱
(۳) ترمذی ۱؍۲۱۱ باب ماجاء فی مہور النساء
(۴) بدائع الصنائع ۲ء۲۷۵