تربیت کے اصول
اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تربیت دینے کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اس کے لئے کیا کیا ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں ؟
اس سلسلہ میں اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام ہر طرح کی اصلاح و تربیت کے لیے حتیٰ المقدور نرمی سے کام لینے اور بلا وجہ تشدد سے احتراز کرنے کا حامی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا ، اس وقت چند مختصر اور جامع لفظوں میں دعوت کے جو زریں اصول بتائے وہ یہ تھے کہ نرمی کرو ، سختی نہ کرو ، خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو " یسرا و لا تعسرا و بشراً و لا تنفراً "(۱) ۔
بے جا تشدد اور سخت گیری اکثر اوقات بڑے مضر اور نقصان دہ نتائج پیدا کرتی ہے ، مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون نے طلبہ کی نفسیات اور ایسے نامناسب رویہ کے اثرات پر بڑی حکیمانہ گفتگو کی ہے ، وہ لکھتے ہیں :
" جس کا طریق تربیت غلاموں بچوں یا خادموں کے ساتھ تشدد آمیز اور قہر آلود ہوتا ہے ، ان کے زیر تربیت لوگوں پر خوف مسلط ہو جاتا ہے ، وہ تنگ دل ہو جاتے ہیں اور ان کی طبیعت کا نشاط ختم ہو جاتا ہے پھر اس کی وجہ سے اس کے اندر سُستی اور کسل پیدا ہو جاتا ہے اور یہ چیز اس کے لئے جھوٹ اور مختلف برائیوں کا محرک ثابت ہوتی ہے ۔ وہ مکر و فریب اور حیلہ جوئی سیکھتا ہے یہاں تک کہ یہی رفتہ رفتہ اس کی عادت اور طبیعت بن جاتی ہے (۲)۔ البتہ ایسا بھی نہ ہونا چاہیے کہ بچوں کی تربیت میں سختی اور
-------------------------------------------------------
(۱) مسلم عن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، بخاری ۶۲۲/۲۔
(۲) مقدمہ ابن خلدون ص ۵۴۰ الفصل الثانی و الثلاتون ۔