قرض دہندہ کو خلافِ عادت تحفہ دے تو یہ بھی اسی حکم میں ہے (۱) ۔
اس تفصیل سے یہ بات عیاں ہے کہ دفتروں اور آفسوں میں کام کرنے والے لوگ اپنے مفوضہ فرائض کے انجام دہی پر انعام وغیرہ کے نام سے جو وصول کرتے ہیں اور جو قبیح اور غیر شرعی رواج کے تحت معمول میں داخل ہو گئے ہیں ، قطعا ناجائز اور حرام ہیں ، رشوت ہیں اور ان کا واپس کر دینا واجب ہے ۔
قمار و جوا :
اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ہرشخص کو خود اپنی محنت اور جد و جہد سے نفع حاصل کرنا چاہیے ۔ محنت کے بغیر محض دوسروں کا استحصال کر کے فائدہ اٹھانے کو اسلام ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے ، اسی لئے تجارت کو نہ صرف جائز بلکہ بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اس میں تاجر اپنی محنت اور ذہانت کا صلہ وصول کرتا ہے اور سود کو ناجائز اور حرام کیا گیا کہ اس میں سود خوار کسی محنت کے بغیر غریبوں اور مفلسوں کا استحصال کر کے سرمایہ بڑھاتا رہتا ہے ۔
قمار میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے ۔ قمار کا اطلاق ہر ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جو نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہو مثلا لاٹری کا ٹکٹ ہے، اگر کوئی شخص پانچ روپیہ میں خرید کرتا ہے تو اسے نفع کی بھی امید ہے اور نقصان کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک لاکھ روپیہ کا مجوزہ انعام مل جائے اور عین ممکن ہے یہ پانچ روپیہ بھی واپس نہ آئے ۔ یا مثلاً دو آدمی میں دوڑ کا مقابلہ ہو کہ اگر تم آگے بڑھ گئے تو تم کو پانچ روپئے دیدیں گے اور ہم بڑھ گئےتو تم کو ہمیں دینا ہو گا ، یہامعاملہ نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہے اس لئے قمار ہو گا ۔
--------------------------------------------------------
(۱) رد المحتار ۴/۳۱۱ ۔