اسی لئے فقہاء اسلام نے بیت المال میں ایسے مجبور اور مفلوک لوگوں کا حق رکھا ہے تاکہ مسلمانوں کے سماج کو اس لعنت سے محفوظ رکھا جاسکے اور خود حضورؐ نے بھی ایسے سائلین اور فقراء کے لئے مستقل حق رکھا(1) کہ ایسے ضرورتمند وں کو باربار ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔۔۔۔۔۔نیز نفقہ اور کفالت کا ایک ایسا جامع قانون بنایا کہ سماج کا کوئی بوڑھا اور بچّہ، عورت اور اپاہج نیز بے روزگار بالکل بے سہارا نہ ہو جائے۔
کسب معاش میں اعتِدال
جہاں آپؐ نے کسبِ حَلال کی تلقین فرمائی ہے اس کو سَراہا ہے اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے وہیں یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اس میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی حرص اور طمع بعض اوقات انسان کے ذہن و دماغ پر جنون و آسیب کی طرح سَوار ہو جاتی ہے اور وہ اس میں ایسا اندھا ہوجاتا ہے کہ حَلال و حرام کی ساری حَدوں کو پھلانگ جاتا ہے، تہذیب و اخلاق کی دیواروں کو ڈھا دیتا ہے اور خدا فراموشی اور خود فراموشی میں مبتلا ہو جاتاہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ دولت مال کی کثرت کانام نہیں بلکہ قلب کے استغناء کا نام ہے ، جو کچھ مقدر میں ہے وہ مِل کر رہے گا اس لئے طلبِ معاش میں اعتِدال سے کام لو "فاجملوافی الطلب"(2) غزوہ تبوک کے موقع سے آپؐ نے خطبہ دیتے ہوئے خصوصیّت سے اس کی تلقین فرمائی اور فرمایاکہ جیسے موت انسان تک پہنچ کر رہتی ہے اسی طرح رِزق انسان تک پہنچ کر رہتی ہے (3) اسی لئے قرآن مجید نے
-----------------------------------------------------------------
(1) دیکھئے ترمذی کتابُ الزکوٰۃ، باب ماجاء فی حق السائِل۔
(2) مجمع الزوائد 71/4، باب الاکتساب فی طلب الرزق
(3) حَوالہ مذکور