تاریخ میں چند ہی ایسے بے حیا اور فطرت کے باغی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے حرمت وحجاب کی اس دیوار کو بھی گرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ہے اور ایسے لوگوں کو کبھی یا کسی قوم میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ دوسرے اگر اتنے قریبی رشتہ داروں میں بھی حرمت کی یہ دیوار قائم نہ ہو ، بھائی بہنوں ، ماں ، بیٹیوں ، سسر اور بہو وغیرہ کے درمیان بھی ازدواجی رشتہ جائز ہو تو کسی شوہر کے لئے اپنے بیوی کی عصمت وعفت اور پاکدامنی پر اعتبار اور اعتماد کرنا مشکل ہوجائے گا ۔ یہ حرمت ذہن کو اس طرح کے عمل کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتی اور ایک فطری حجاب و حیا کو قائم رکھتی ہے جس سے باہمی اعتبار و اعتماد بھی باقی رہتا ہے ۔ اگر یہ حجاب نہ ہو تو دن رات ساتھ رہنے والے نوجوان بھائیوں اور بہنوں کے درمیان برائی سے مامون نہیں رہا جاسکتا ۔
تیسرے جدید ماہرین طب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نہایت قریبی خاندانی رشتہ داروں کے درمیان ازدواجی تعلقات پیدا ہونے والی اولاد کے لئے انتہائی مضر اور شدید قسم کے امراض بالخصوص جنون اور عقلی توازن سے محرومی کا باعث ہوسکتے ہیں ۔
عارضی محارم
کچھ اقرباء وہ ہیں جن سے عارضی طور پر نکاح حرام ہے اوراس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ پہلے سے جو عورت نکاح میں ہے اس کی رشتہ دار دوسری عورت جو اس کے محرم کے درجہ کی ہو اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کو مرد فرض کرلیا جائے تو ان دونوں کے درمیان باہم نکاح جائز نہ ہو ، سے نکاح نہیں کیا جاسکتا مثلا ایک بہن کی موجودگی میں دوسری بہن سے ، یا پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی وغیرہ کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں ۔ ہاں اگر ان میں سے ایک سے علیحدگی ہوجائے تو دوسری