اسی طرح سواری یا بار برداری کے لئے سواری کا کرایہ لینا بھی درست ہے۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ اس کے لئے سوار، اٹھایا جانے والا سامان، جہاں سے جہاں لے جایا جا رہا ہو، اس کی تعیین وغیرہ ضروری ہو گی (۱)۔
فقہاء کے یہاں ان ساری وضاحتوں کا اصل مقصد ممکنہ نِزاع اور اختلاف کا سد باب ہے۔ موجودہ زمانہ میں جو تیز رفتار سواریاں ہیں، ان کے لئے جو قوانین اور قواعد ہیں، انہی کے مطابق معاملات ہوں گے، اس لئے کہ قانون کی وجہ سے اس کی حیثیت عرف کی ہو گئی ہے اور جو چیز عرف کے مطابق ہوتی ہے وہ نزاع و اختلاف کا سد باب کرتی ہے۔
زرِ ضمانت :
آج کل صاحبِ مکان کرایہ دار سے کچھ رقم بطور زرِ ضمانت حاصل کرتے ہیں، ایسا اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ کرایہ دار کے ضرر سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے، یہ ایک طرح سے کرایہ کے ساتھ قرض کی شرط ہے جو رواج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور اگر کوئی شرط رواج کا درجہ اختیار کر لے تو پھر وہ جائز اور درست ہو جاتی ہے (۲) اس لئے جائز ہے۔
پگڑی :
فی زمانہ شہروں اور قصبات میں کرایہ داری کے ساتھ پگڑی کا رواج بھی عام ہو گیا ہے۔ پگڑی کی کئی صورتیں ممکن ہیں :
۱ ۔ مالکِ مکان کا کرایہ دار سے پگڑی لینا۔
۲ ۔ پگڑی کے ذریعہ دوکان حاصل کرنے والے کرایہ دار کا خود مالک مکان
---------------------------------------------------------------
(۱) البحر الرائق ص: ۱۲
(۲) ہندیہ ۴/۴۴۲، تفصیل کے لئے جدید فقہی مسائل حصہ دوم دیکھی جائے۔