یہ طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب الفاظِ کنایہ سے طلاق دی جائے۔ یا یوں کہا جائے میں نے تم کو طلاقِ بائن دیدی۔ طلاقِ رجعی بھی عدت گزرنے کے بعد طلاقِ بائن بن جاتی ہے اور عدت گزرتے ہی فوراً میاں بیوی میں مکمل علیحٰدگی ہو جاتی ہے۔ چونکہ طلاق بائن واقع ہونے کے بعد نکاح بالکل ختم ہو جاتا ہے اور عورت اس کی بیوی باقی نہیں رہتی اس لئے اگر ایک دفعہ کے بعد دوبارہ طلاقِ بائن دے یا عدت میں پھر طلاقِ بائن دینا چاہے تو یہ دوسری طلاق واقع نہیں ہو گی۔ مثلاً کہا جائے "میں نے تجھے طلاقِ بائن دی، میں نے تجھے طلاقِ بائن دی۔" تو ان دونوں میں سے صرف پہلی طلاق واقع ہو گی اور اگر ایک ہی لفظ میں ایک سے زیادہ طلاق دیدے جیسے "میں نے تجھ کو دو (2) طلاق بائن دیدی" تو دونوں طلاق واقع ہو جائیں گی، ہاں اگر طلاقِ بائن کے بعد صریح لفظوں میں عدت ہی کے درمیان پھر طلاق دےدے (جسے طلاق رجعی کہتے ہیں) تو یہ طلاق بھی واقع ہو جائے گی (۱)۔
یکحائی سے پہلے طلاق
وہ عورت جس سے مرد نے ابھی مباشرت نہ کی ہو اگر اس کو صریح لفظ طلاق سے بھی ایک طلاق دیدے تو یہ طلاق بائن ہو گی۔ اس کے بعد نکاح کے بغیر بیوی کو لوٹانے کی گنجائش نہیں رہے گی اور اس لئے اگر الگ الگ جملوں میں اس کو دو یا تین طلاق دی جائے تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ دوسری اور تیسری طلاق واقع نہ ہو گی۔ مثلاً کہے "میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی" تو ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ ہاں اگر ایک ہی جملہ میں دو (2) طلاق دیدی تو دونوں پڑ جائیں گی۔ جیسے کہے میں نے تجھ کو دو (2) طلاق دی۔
---------------------------------------------------------------
(۱) خلاصۃ الفتاویٰ ۲/۸۷، الصریح یلحق البائن۔