کو کسی ایسے چھوٹے گڑھے میں رکھے جس سے نکالنا آسان اور سہل ہو۔
اب ظاہر ہے کہ جن صورتوں میں آدمی مچھلی کا مالک ہی نہ ہو اس میں تو خرید و فروخت درست نہیں ہے اور جب مچھلی کا مالک ہو جائے تب بھی اسی وقت درست ہوگی جب اوپر ذکر کی گئی دونوں صورتوں میں سے کوئی پائی جائے (1)
باغات اور پھلوں کی خرید و فروخت :
خرید و فروخت کی بعض صورتیں جو مروج ہیں اور ایسی ہیں کہ شرعی اور فقہی اعتبار سے ان کا جواز مشکوک ہے یا ان کی بعض صورتیں نا جائز ہیں ایسے مسائل میں ایک باغات اور پھلوں کی خرید و فروخت بھی ہے۔
باغات کی خرید و فروخت کی ممکنہ اور مروجہ صورتیں یہ ہیں :
(1)پھل ابھی آئے بھی نہ ہوں اور باغ فروخت کردیا جائے جیسا کہ بعض اوقات ایک یا کئی کئی سال کے لئے باغ فروخت کردئے جاتے ہیں ۔
(2)پھل نکل آئے لیکن ابھی ابتدائی حالت میں ہوں ،انسانی استعمال کے لائق نہ ہوئے ہوں اور ان کو بیچ دیا جائے ۔
(3)کچھ پھل نکل آئے ،کچھ ابھی نہیں نکلے بلکہ مستقبل میں ان کا نکلنا متوقع ہو اور موجودہ اور آئندہ نکلنے والے دونوں طرح کے پھل فروخت کردئے جایئں ۔
(4)پھل نکل آئے اور انسانی استعمال کے لائق بھی ہوگئے جس کو فقہ و حدیث میں "بدوصلاح" سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
پھر آخر الذکر تینوں صورتوں (2-4)میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں :-
-----------------------------------------------
(1)جو تفصیلات ذکر کی گئی ہیں حافظ ابن ہمام نے ہدایہ کی شرح "فتح القدیر"میں اس کو لکھا ہے اور ابن عابدین شامی نے نقل کیا ہے شامی 102/4