حلت والّا لا، ان لم تدد حیاتہ عند الذبح و ان علم حیاتہ حلت مطلقاً (۱)۔
ذبیحہ پر بسم اللہ
جانور کو ذبح کرتے وقت ضروری ہے کہ اس پر بسم اللہ کہا جائے، ارشادِ خداوندی ہے : لَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ ﴿الانعام:١٢١﴾۔ اس لیے جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا واجب ہے، متعدد حدیثیں بھی اس سلسلہ میں منقول ہیں، البتہ اگر بسم اللہ کہنا بھول جائے تو شریعت اسے معذور قرار دیتی ہے اور شریعت اس کے ذبیحہ کو جائز رکھتی ہے، خود قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے، اس لئے کہ بسم اللہ کے ترک کو قرآن فسق قرار دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ فسق اسی عمل میں ہوتا ہے جس میں کسب و ارادہ کو دخل ہو، بھول کی وجہ سے کوئی کام چھوٹ جائے تو ایسے شخص کو فاسق نہیں کہا جا سکتا، اس لئے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دیا جائے تو ذبیحہ مردار کے حکم میں ہو گا لیکن بھول کر بسم اللہ نہ کہا تو ذبیحہ جائز ہو گا، یہی رائے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اور امام احمد رحمۃ اللہ کی ہے (۲)۔ مالکیہ کے نزدیک بھول کر بسم اللہ نہ کہہ سکا تب بھی ذبیحہ درست نہ ہو گا اور ذبیحہ مردار قرار پائے گا، شوافع کا خیال ہے کہ بسم اللہ کہنا سنت ہے، جان بوجھ کر بسم اللہ نہ کہے پھر بھی ذبیحہ حلال ہو گا کہ اصل مقصود صرف یہ ہے کہ ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام نہ لیا جائے تاہم آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے وہی صحیح ہے جو فقہاء احناف کی ہے۔بسم اللہ کہنے کا یہ حکم مسلمان اور اہل کتاب دونوں کے لئے برابر ہے یعنی یہودی اور عیسائی کا ذبیحہ بھی اسی وقت حلال ہو گا جب کہ وہ ذبیحہ پر اللہ کا نام لے
-----------------------------------------------------------
(۱) در علیٰ ہامش الرد ۵/۱۶۹
(۲) بدائع ۵/۴۵، المغنی ۹/۳۲۰۔