بہرحال نابالغی کی عمر میں ختنہ کر دینا چاہیے اور بچہ کی صحت اور اس کی آسانی کے اعتبار سے وقت اختیار کرنا چاہیے۔
بالغ آدمی اسلام قبول کرے تو اگر ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کی قوت نہ ہو تو ختنہ نہ کرے، تکلیف اٹھا سکتا ہو اور اپنا آپ ختنہ کرنے پر قادر ہو تو خود ختنہ کر لے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل سے ثابت ہے، خود نہ کر سکتا ہو تو ایک طرف بے ستری ہوتی ہے جس کا تقاضا ہے کہ ختنہ ممنوع ہو، دوسری طرف ختنہ شعار اسلام کا درجہ رکھتا ہے اور شعار کی جو اہمیت ہے، وہ محتاجِ اظہار نہیں۔ ان دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر خیال ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے لئے ختنہ کرا لینا بہتر ہے۔ اس لئے کہ ختنہ ایک درجہ میں علاج بھی ہے اور علاج کے لیے بےستری کا جائز ہونا ظاہر ہے۔ دوسرے عثیم بن کثیر کی روایت بھی موجود ہے کہ ایک نو مسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختنہ کرانے کا حکم فرمایا (۱)۔ اسی لئے فقہاء نے بھی "حمامی (غسل خانہ کے کارندہ) سے ختنہ کرانے کی اجازت دی ہے (۲)۔
بعض اور احکام
جو بچے پیدائشی طور پر مختون ہوں، ان کا ختنہ نہیں کرایا جائے (۳)۔ ختنہ کرنےاور علاج کے اخراجات خود بچہ کے مال سے ادا کئے جائیں ورنہ اس کی ذمہ داری باپ پر (۴) یا اس شخص پر ہو گی جس کے ذمہ اس کا نفقہ واجب ہے (۵)۔
----------------------------------------------------------
(۱) الاتحاف ۲/۶۶۶۔
(۲) ہندیہ ۵/۳۵۷۔
(۳) شرح مہذب ۱/۳۰۷۔
(۴) عالمگیری ۵/۳۵۷۔
(۵) شرح مہذب ۱/۳۰۶۔