پیدا ہوتی ہیں ۔ شراب کا سب سے پہلا حملہ انسان کی زبان پر ہوتا ہے، وہ ماں باپ اور بزرگوں کی ہتک کیا معنی؟ بھائیوں کی عزت و توقیر کجا، خدا کے ساتھ تمسخر اور کفریات کے تکلم سے بھی باز نہیں رہتا، پھر یہ بدمستی اور رنگ لاتی ہے اور ہاتھ پاؤں تک پہنچتی ہے، اور ظلم و زیادتی اور دوسروں پر تعدی کو اس کیلئے بازیچہ اطفال بنادیتی ہے پھر جب یہ بدمستی بام عروج پر پہنچتی ہے تو شراب کو شباب کی تلاش ہوتی ہے اور ایسی ہوسناکی اور نفسانیت وجود میں آتی ہے کہ حیوانات اور بہائم کی جبین غیرت بھی عرق آلود ہو، شراب کی ادنیٰ انگڑائی مدتوں کے مضبوط رشتہ کو پاش پاش کر دیتی ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بیوی کو طلاق دیدی ہے ------------پس کتنی مطابق واقعہ ہے یہ بات اور کتنا حقیقت شناس ہے یہ فقرہ کہ شراب برائیوں کا سرچشمہ ہے اور صرف گناہ نہیں، گناہ عظیم تر ہے۔ الخمر أم الفواحش وأكبر الكبائر،
شراب کی تدریجی حرمت
اسلام سے پہلے شراب عربوں میں عام تھی اور عرب اس کے اس درجہ خوگر تھے کہ بیک دفعہ ان کو اس سے منع کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے الله تعالیٰ نے اس کو تین مرتبہ حرام قرار دیا، پہلے مرحلے میں محض یہ بتایا گیا کہ شراب میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے، قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (البقرہ :219) بعض صحابہ اتنی ہے تنبیہ کے بعد شراب سے مجتنب رہنے لگے لیکن عام خیال یہی تھا کہ ابھی شراب مکمل طور پر حرام نہیں ہوئی ہے، ایک دفعہ کچھ لوگوں نے شراب پی، پھر انھی میں سے کسی نے نماز پڑھائی اور قرآن پڑھنے میں سخت غلطی کردی، چنانچہ حکم باری تعالیٰ ہوا کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ ( نساء: 43)