جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ یا چھ اونٹنیوں کا نحر فرمایا اور فرمایا کہ جو چاہے اس میں سے کاٹ لے، من شاء اقتطع، یہ اجازت اور لٹائی ہوئی چیز میں سے لوٹنے کی اجازت بظاہر ایک ہی درجہ رکھتی ہے (۱)۔ بعض اہل علم نے اس کے جواز پر ایک انصاری کا واقعہ نکاح سے استدلال کیا ہے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میوے لٹائے تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ اس روایت سے استدلال قرینِ انصاف نہیں کیوں کہ اس میں بشر بن ابراہیم نامی راوی آیا ہے جس کے بارے میں محدثین کا خیال ہے وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا (۲)۔
تاہم اوپر جو باتیں مذکور ہوئیں وہی اس کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں اور تجربہ یہ ہے کہ ایسی تقریبات میں مزاحمت اور مخاصمت اور باہم نزاح کی سی کیفیت پیدا نہیں ہوتی، محض خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے، فتاویٰ عالمگیری میں بھی اس موقعہ پر میٹھی چیز یا درہم وغیرہ لٹانے کا جواز نقل کیا گیا ہے (۳)۔ ہاں اگر کہیں اس کی وجہ سے مجلس میں تہذیبی اور ناشائستگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو تقسیم کر دینا بہتر ہے۔
مبارک باد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ نکاح کے بعد مبارکباد کے الفاظ کس طرح کہے جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے بعد یوں مبارکباد دیتے :
-----------------------------------
(۱) المغنی ۷/۲۱۹۔
(۲) مجمع الزوائد ۴/۲۹۰۔
(۳) فتاویٰ عالمگیری ۵/۔۔۔۔۔۔