خرید و فروخت کے جائز ہونے اور نہ ہونے کا خاص تعلق کِسی چیز کے قابلِ انتفاع ہونے اور نہ ہونے سے بھی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن چیزوں کی خرید و فروخت کی ممانعت کتاب و سنت سے صراحتاَ نہ ثابت ہواور وہ کِسی دَور میں اس لائِق ہو جائے کہ اس سے نفع اٹھایا جا سکے تو فقہاء اس کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیتے ہیں مثلاَ عام اصول یہی ہے کہ کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض سانپ وغیرہ کی خرید و فروخت جائز نہیں ، لیکن ریشم کے کیڑے اور اس کے انڈے اور شہد کی مکھی کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ فقیہ ابواللیث نے جونک کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس سے علاج میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ اور علامہ حصکفی نے نقل کیا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے [۱] اسی طرح علامہ شامی رح نے لکھا ہے کہ دوا میں سانپ کا استِعمال کیا جا سکتا ہو تو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہوگی [۲] بلکہ حصکفی نے ایک اچھا قاعدہ نقل کیا ہے کہ: ان جواز البيع يدور مع حل الانتفاع [۳] خنزیر کے بال کی خرید و فروخت بھی اسی بنیاد پر فقہاء کے یہاں جائز قرار پائی ہے ، پس حاصِل یہ ہے کہ جن اشیاء کی خرید و فروخت کی ممانعت قرآن و حدیث میں صراحۃَ مذکور نہیں اور وہ کسی زمانہ میں قابلِ انتفاع ہوجائیں تو فقہاء اس کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرتے ہیں اور اس کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
خرید و فروخت میں شرطیں؟
شریعت یہ بھی چاہتی ہے کہ خرید و فروخت کے معاملے میں ایسی کوئی شرط نہ لگائی جائے جو معاملہ بیع کے اصل تقاضوں کے خلاف ہو مثلاَ بیع کے ذریعہ خریدار سودے کا مکمل
--------------------------------------------------------------------
[۱] در علیٰ ہامش الرد ۱۱۱/۳ ۔
[۲] رد المحتار ۱۱۱/۳ ۔
[۳] در مختار ۱۱۱/۳ ۔