شکار
کون سے جانور حلال ہیں اور کون سے حرام، اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ جن جانوروں کا کھانا حلال ہے ان کا شکار بھی جائز ہے، شکار کا جائز ہونا قرآن مجید اور حدیث سے ثابت ہے، ارشادِ خداوندی ہے :إِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ (مائدہ :۲) احرام کھولنے کے بعد شکار کر سکتے ہو۔
آگے فرمایا گیا کہ اپنے تربیت یافتہ شکاری جانوروں کے ذریعہ شکار کرو۔ یہ بھی تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ وہ شکار کئے ہوئے جانور کو تم پر روک لیں۔ اور تم ان پر اللہ کا نام لے چکے ہو (مائدہ:۴)۔ حدیثیں بہت سی شکار کے جواز میں موجود ہیں، اسی لئے شکار کے حلال اور مباح ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے (۱)۔
سمندری اور زمینی دو طرح کے جانور کا شکار جائز ہے۔ خواہ ان کا کھانا حلال ہو یا نہ ہو۔ کھانا حلال ہو تو گوشت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، حلال نہ ہو تو اس کے چمڑے، بال اور ہڈی وغیرہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، یا اس کی ایذاء سے اپنا تحفظ کیا جا سکتا ہے (۲)۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جس جانور کا شکار کیا جا رہا ہو وہ کسی اور کی ملکیت نہ ہو (۳)۔ نہ حدودِ حرم میں واقع ہو، ہاں ایذاء پہنچانے والے جانور حرم میں ہوں تو بھی ان کا شکار جائز ہے (۴)۔
شکار کے سلسلہ میں کئی بات ہے جو پیشِ نظر رکھے جانے کے لائق ہے۔ اول خود شکار کرنے والے کے بارے میں کہ اس میں کیا باتیں پائی جانی چاہیں، شکار میں اس سے کیا عمل متعلق ہے؟
--------------------------------------------------------------
(۱) المغنی ۹/۲۹۲۔
(۲) بدائع ۵/۶۱۔
(۳) ۔۔۔۔۔۔ الرائق ۸/۲۲۰۔
(۴) ۔۔۔۔۔۔ ۵ِ/۶۱۔