بعض حضرات خیال ہے کہ بینک وغیرہ جو لوگوں کی رقوم کو تجاراتی اغراض کے لئے استعمال کرتا ہے اس کی طرف سے ملنے والا نفع ’’سود‘‘ میں داخل نہیں ہے کیوں کہ اس سے غریبوں کا استحصال نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ، کیونکہ :
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی تفریق کے بغیر ہر طرح کے قرض پر نفع کے حصول کو ناجائز قرار دیا ہے ، ارشاد ہوا کل قرض جر نفعا فھو ربا ۔
۲۔ یہ رائے اس اصول پر مبنی ہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں سود خوری کی جو کیفیت پائی جاتی تھی ، آیت ربا میں صرف اس صورت کی ممانعت تسلیم کی جائے گی ، لیکن یہ فقہاء کے اس اصول مقررہ کے خلاف ہے کہ نصوص میں ہمیشہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ اس موقعۂ ورود کا ، العبرۃ لعموم للفظ لا لخصوص المورد ۔
۳۔ خود زمانہ نبوت میں بھی تجارتی قرضوں اور سودی قرضوں کا رواج تھا لیکن ربا کی حرمت سے متعلق آیات و روایات میں تجارتی و غیر تجارتی قرضوں میں کسی طرح کی تفریق نہ کی جانی اس بات کی علامت ہے کہ ممانعت کا یہ حکم تجارتی قرضوں کو بھی شامل ہے (۱)
۴۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ تجارتی قرضوں میں استحصال نہیں ہوتا کیونکہ تاجر کو اس سرمایہ کے استعمال میں نقصان بھی ہوسکتا ہے ، کبھی نہ نفع اور نہ نقصان کی صورت بھی پیش آسکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ نفع کے مقرر کردہ تناسب کے برابر بھی نفع حاصل نہ ہوسکے ۔
بنک انٹرسٹ کا مصرف :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ملاحظہ ہو مولانا تقی عثمانی کی تکملہ فتح الملہم ۱؍۵۷۱ تا ۵۷۴