کفاءت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض روایات میں نکاح میں کفاءت یعنی برابری اورہمسری کا لحاظ کرنے کو کہا گیا ہے ، عام طور پر اس سلسلہ میں جو حدیثیں نقل کی جاتی ہیں وہ ضعیف اور نامعتبر ہیں ۔ تاہم فقہاء نے مجموعی طور پر نو امور میں کفاءت کا اعتبار کیا ہے : نسب وخاندان ، آزادی وغلامی ، خاندانی مسلمان یا نو مسلم ہونا ، دیانت و تقوی ، مال اور معاشی سطح ، حسب ، پیشہ وذریعہ معاش ، جسمانی عیوب سے محفوظ ہونا ، اور عقل وفہم ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ محض دین و اخلاق ہے ۔
خاندان اور برادری کے لحاظ میں غلو اسلام کی شانِ مساوات اور مذاق اخوت کے خلاف ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے تم سے جاہلیت کا امتیاز اور آباء واجداد پر فخر کو ختم کردیا ہے ، انسان یا تو مومن تقی ہے یا فاجر شقی (۱)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ نے خود اپنے عمل کے ذریعہ اس کی مثال پیش فرمائی ۔ آپ نے اپنی چچا زاد بہن حضرت زینب کا نکاح اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ سے فرمایا (۲) انہی حضرت زید کے لڑکے حضرت اسامہؓ کا نکاح آپؐ نے فاطمہ بنت قیس سے فرمایا جو قریشی خاتون تھیں (۳) حضرت ضباعہ بنت زہیر بن عبدالملطب کا نکاح مقداد بن اسود سے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ مقداد اور زید کا نکاح ہم نے اس طرح اس لئے کیا ہے کہ اخلاق شرافت کا معیار بن جائے ۔ ’’ لیکون اشرفکم عنداللہ احسنکم خلقا ‘‘ (۴) آپؐ کی اور آپ کے صحابہؓ کی حیات میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ابوداؤد ، باب التفاخر بالانساب
(۲) بیہقی ۷؍۱۳۴
(۳) بخاری ومسلم
(۴) بیہقی ۷؍۱۳۵