سے زیادہ سوگواری کی اجازت نہیں (۱) غزوہ موتہ (۹ھ) میں حضرت جعفر شہید ہو گئے ، مدینہ میں اس کی خبر پہنچی تو حضرت جعفرؓ کے یہاں اس کا اثر پڑنا فطری تھا ۔ آ؛پﷺ نے اس موقع پر ان کے خاندان کے لئے کھانا بھیجنے کی ہدایت فرمائی کہ اس غم نے ان کے دل و دماغ کو مشغول کر رکھا ہے (۲) چنانچہ اہل علم نے میت کے گھر کھانا بھیجنے کو مستحب قرار دیا ہے (۳)
حالت عدت میں عورت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ تزیین و آرائش سے گریز کرے لیکن دوسرے اقرباء اپنے کسی عزیز کی موت پر اظہار غم و افسوس کا یہ طریقہ بھی اختیار نہ کریں ۔ (۴)
تعزیت :
غم کے موقعہ پر تسلی و تسکین اور پرسہ و دلدہی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس سے بے قراری کو قدرے قرار اور بے سکونی کو سکون میسر ہوتا ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے ، اس کو بھی اتنا ہی اجر ہے جتنا خود اس مصیبت زدہ شخص کو صبر و شکیب پر (۵) ایک روایت میں ہے کہ جس نے بچہ کی موت پر ماں کی تعزیت کی اس کو جنت میں چادر عطا کی جائے گی (۶)
تعزیت کے موقعہ سے ان الفاظ سے دُعا دی جانی چاہیے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ترمذی باب ماجاء فی عدۃ المتوفی عنہا زوجہا ۔
(۲) ابوداؤد ، باب صنعۃ الطعام لاہل البیت
(۳) ترمذی ، باب ماجاء فی الطعام یصنع
(۴)
(۵) ابن ماجہ ، باب ماجاء فی ثواب من عزیٰ مصابا
(۶) ترمذی ، باب آخر فی فضل التعزیۃ ۔