ہونے کا اظہار کر دیتے ہیں اور اس نکاح میں یہ بات ان کے دل میں ہوتی ہے، زبان تک نہیں آتی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجی ہے جو ایک صاحبِ ایمان کو بے چین کر دینے اور تڑپا دینے کے لئے کافی ہے (۱)۔ البتہ اگر کوئی شخص ایسا کر ہی گزرے تو نکاح منعقد ہو گا یا نہیں؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
عام فقہاء کی رائے یہی ہے کہ نکاح منعقد ہو جائے گا، وہ عورت شوہر اول کے لئے حلال ہو جائے گی (۲)۔ البتہ فقہاء حنابلہ اور احناف میں قاضی ابو یوسف ایسے نکاح کو تحلیل کے لئے ناکافی قرار دیتے ہیں (۳)۔ صحیح یہی ہے کہ گو ایسا شخص عند اللہ سخت عاصی اور گنہ گار ہے اور یہ طرز عمل مذموم اور نہایت ناپسندیدہ ہے لیکن حلت پیدا کرنے کے لیے کافی ہے، اس لئے کہ خود اس حدیث میں بھی شوہر دوم کو حلال قرار دینے والا (محلل اور شوہرِ اول کو محلل لہ (جس کے لئے عورت کو حلال کیا گیا قرار دیا گیا ہے اور اسلامی قانون میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ ایک فعل بجائے خود ممنوع اور ناپسندیدہ رہتا ہے لیکن اس سے جو نتائج اور اثرات متعلق ہوتے ہیں وہ بہر حال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
نکاح کے مقاصد
آب ایک نظر ان مقاصد پر بھی ڈالنا مناسب ہو گا جن کے لئے اسلام نے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اس کو معاملات سے بڑھ کر عبادات کے خانہ میں جگہ دی ہے اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کے بڑے طبقہ کی نگا میں تأہل کی زندگی
-------------------------------------------------
(۱) لعن اللہ الحلل والحلل لہٰ۔ ابو داؤد، باب التحلیل ۱/۲۸۴۔
(۲) دیکھئے شرح مہذب ۱۶/۲۴۹، ہدایہ ۲/
(۳) المغنی ۷/۱۳۸۔